نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...
حالیہ پوسٹس

جوزف ہورووٹز: محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد

محمد سجاد جوزف ہورووٹز (Josef Horovitz 1874-1931) علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلق سے جو لا تعداد کتابیں لکھی گئ ہیں ان میں ان کے بارے میں بہت کم جانکاریاں مل پاتی ہیں۔  یہودی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اس جرمن محقق و مدرس نے اسلامیات کی تحقیق و تدریس کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دئے۔ اور اس طرح ادبی و ثقافتی مطالعات میں اہم اضافے کئے۔  جوزف کے والد مارکس (Marcus) ہورووٹز بھی تاریخ داں تھے، اور ہنگری سے تعلق رکھتے تھے۔ جوزف ہورووٹز نے فرینک فرٹ، مار برگ، اور برلن یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مصر، شام، اور فلسطین کا سفر بھی کیا تھا۔ سنہ 1907ء میں ان کی تقرری بھارت (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) میں ہوئ تھی۔ علی گڑھ میں استاد کے علاوہ برطانوی ہند حکومت کے لئے فارسی و عربی ایپی گرافیسٹ کا کام بھی انجام دینا تھا۔  ان کا تعلق قاہرہ کے عربی دانشور رشید رضا (مدیر، المنار) ، شبلی نعمانی، حمیدالدین  فراہی، سے بھی تھا۔ عبدالستار خیری، عبدالجبار خیری، عبدالحق (عثمانیہ ...

ووٹر آئی ڈی کو آدھار کارڈ سے جوڑنے پر کسے فائدہ ہوگا؟

نوید اشرفی پارلیمنٹ کے گزشتہ سرمائی اجلاس میں تقریباً 12 نئے بل متعارف کیے گئے جن میں ووٹر آئی ڈی اور آدھار کارڈ کو مربوط کرنے کے لیے بھی ایک بل شامل تھا۔ اس بل کو 20 دسمبر کو لوک سبھا  اور 21 دسمبر کو راجیہ میں منظور کیا گیا۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا اور اس بات پر سخت ناراضگی ظاہر کی کہ حکومت نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے اس بل کو پارلیمنٹ میں متعارف کیا۔ اپوزیشن نے یہ الزام عائد کیا کہ حکومت کے یہ اقدامات متعدد ووٹروں کو رائے دہندگی کے حق سے محروم کر دیں گے۔  اپوزیشن  کے مطابق یہ اقدامات شہریوں کے حقِ رازداری کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ ایوان میں بحث کے دوران ترنمول کانگریس کے رکن ڈیریک او برائن کو اجلاس کے بقیہ ایام کی سرگرمیوں سے برخاست کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس بل کو عجلت میں منظوری حاصل ہوئی جبکہ اپوزیشن یہ مطالبہ کرتی رہی کہ مزید تنقیح کے لیے بل کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ غور طلب ہے کہ اس بل کو انتخابی اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...

برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کی عمومی تاریخ کا منفرد جائزہ

 پروفیسر محمد سجاد برطانوی عہد کے ہندوستانی مسلمانوں کے تاریخی مطالعے کے حوالے سے یوں تو ولفریڈ کینٹویل اسمتھ Wilfred Cantwell Smith (1916-2000) کی تصنیف، ماڈرن اسلام ان انڈیا: اے سوشل اینالیسیس- Modern Islam in India: A Social Analysis (1943)، کو اولین اور بنیادی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ جواہر لعل  نہرو نے اپنی کتاب، ڈسکوری آف انڈیا- Discovery of India (1946) میں اس کا ذکر یوں کیا ہے کہ ان کو ملال تھا کہ وہ اسمتھ کی اس اہم کتاب سے استفادہ حاصل نہیں کر پائے تھے۔

اے ایم یو کی طلبا سیاست: 1965 تا 1981

از:  لارنس گوتئیر ترجمہ و تلخیص: پروفیسر محمد سجاد، شعبہ تاریخ، علیگرھ مسلم یونیورسٹی۔ (اول) لارنس گوتئیر Laurence Gautier ایک فرانسیسی اسکالر ہیں۔ انہوں نے 2016 میں کیمبرج یونیورسٹی سے بھارت کی “مسلم” یونیورسٹیوں کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ اب جندل یونیورسٹی، سونی پت، ہریانہ میں تدریسی و تحقیقی کام انجام دے رہی ہیں۔ سنہ 2019 میں انہوں نے ایک طویل تحقیقی مضمون شائع کیا ہے جو اے ایم یو کی 1965 کے بعد کی اسٹوڈنٹ تحریکوں پر مرکوز ہے۔ یوں تو سینئر فرانسیسی  محقق وائیلیٹ گراف نے بھی اس موضوع پر بہت طویل مضمون ای پی ڈبلیو کے 11 اگست 1990  کے شمارے میں شائع کیا تھا لیکن اس طویل مضمون کا حوالہ گوتیئر نے نہیں دیا ہے۔  بہر کیف، یہاں گوتیئر کے 21  صفحات پر مشتمل، اس مضمون (2019) کی تلخیص اردو میں پیش کی جاتی ہے: