پروفیسر محمد سجاد
ترجمہ : غلام قادر؛ بشکریہ: ریڈف ڈاٹ کام
آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے دیگر تمام اہم تاریخوں کے مقابلے میں دو تاریخیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوں گی: 6؍دسمبر 1992 جو پہلے سے ہی ذہن میں’بلیک ڈے‘ کے طور پر سما گیا ہے۔ اور دوسری اہم تاریخ 9 نومبر 2019 ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ بہت سےمسلمان جو 6 دسمبر 1992 کے بعد پیدا ہوئےہیں لیکن وہ اس حالت میں پروان چڑھے ہیں کہ اس حادثے کا اثر ان کے والدین، پڑوسی اور ان کے آل و اولاد پر رہا ہے۔اسی وقت سے حالات بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ۔ اس کے باوجود متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ ،اور ترقی پذیر طبقے کے مسلمان خود احتساب کی کا ذمہ داری نبھا رہے ہیں ،کہ ان کے درمیان قدامت پسند لوگ کس حد تک انتہا پسند اکثریت پرست طاقتوں کی سیاست کو توانائ فراہم کرنے میں معاون رہے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ اپنے درمیان کے ان قدامت پسندوں اور فرقہ پرستوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، لکھ رہے ہیں ، تقریریں کر رہے ہیں۔ اسی طرح وہ ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے خلاف بھی بول رہے ہیں، جو انتہا پسندی کی جانب رغبت و میلان رکھتے ہیں۔
جنسی اصلاح کے سلسلے میں، بر عکس اس کے جو کہ 1986ء کے شاہ بانو معاملے میں ہوا، متوسط طبقے کے صاحب رائے مردو خواتین نے ،صاحب علم اور، مذہبی رہنماؤں، کو بے پردہ کیا ۔اور ان قیادتوں کو بھی ملزم ٹھہرایا ہے جو کہ ان مذہبی رہنماؤں کے چٹے بٹے ہیں ۔
ان تمام اصلاحی اقدام کے باوجود، بھگوا اکثریت اپنی قوت میں اضافہ کرتی رہی اور آخر کار وہ ایک واحد غالبانہ سیاسی جماعت کے طور پر بے لگام حکومتی طاقت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی۔اس معاملے میں سب سے گندہ رول کچھ ٹیلی ویزن چینلوں کے ذریعہ ادا کیا گیا ۔ یہ زہریلا عمل 1980 کی دہائی سے ہی جاری ہو چکا تھا، جب ایک وسیع پیمانے پر پڑھے جانے والے ہندی روزنامہ اخبار نے ہندی بولی جانےوالے علاقوں میں سماجی ماحول کو فرقہ وارانہ بنا دیا۔
ایودھیا میں ہونے والی توڑپھوڑ (6 دسمبر 1992) اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہندوستان کے کئی خطوں میں وحشیانہ تشدد کئی حد تک ہندوستانی میڈیا کی انہی جماعتوں کے انجام دیئے گئے عمل کا نتیجہ ہے۔
بہر کیف، یہ انہدام ایک جنونی ہجوم کے ذریعہ انجام دیا گیا تھا جس کو اقتدار کی بھوکی سیاسی جماعتوں نے استعمال کیا تھا (ان میں سے کچھ کے دعوی کے باوجود کہ وہ محض ثقافتی تنظمیں تھیں)۔ یہ کوئی آ ئین کی پابند تنظیم یا ادارہ نہیں تھا۔ اس وقت بہت ساری سیاسی جماعتوں اور قابل ذکر افراد نے اس طرح کے ظالمانہ اور جارحانہ رویےکے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور آواز بلند کرنے کی ہمت اور جراءت دکھائ تھی۔ یہ سچ ہے کہ حفاظتی اور تفتیشی ایجنسیوں نے مظالم کی روک تھام میں متعصبانہ رویہ اختیار کیا۔
سید محمد اشرف نے اپنے افسانہ "کعبے کا ہرن " میں مسلمانوں کی نا اُمیدی کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے ۔اس کہانی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندو علاقہ میں رہنے والا ایک مسلم خاندان یہ خواہش کرتا ہے کہ قتل کیا جا چکا ایک شخص کی شناخت کسی ہندو کے طور پر نہ ہو جائے۔ ورنہ اس مسلم خاندان کو، انتقاما، ہلاک کر دیا جائے گا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوتا ہے کہ مقتول مسلمان ہے، تو وہ مسلمان خاندان، بہت بڑی راحت محسوس کرتا ہے۔ اور خوشی کے مارے حلوے بانٹتا ہے۔ ایسے ہی خوف کے مارے، فسادات میں مارے جانے والے لوگوں کے اقارب ثبوت اکٹھا کر کے، سست رو عدالتوں میں نہیں جاتے تھے، اور اس طرح قاتل تقریبا ہر بار بچ نکلتے گئے، اور اسی لئے فسادات ہوتے رہے۔
یہاں تک کہ اس وقت کی حکمراں پارٹیاں اور ان کے اہم لیڈر، مجرم سے اپنی ہمدردی چھپاتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن پھر بھی، ساتھ ہی ساتھ، مظلوم کا دل رکھنے کے لیے معاوضہ کی رقم بھی دے دیا جاتا تھا ۔
مسلمانوں نے اسی طرح جینا سیکھ لیا تھا۔ اور خود کو بہلا لیا تھا کہ وہ ایک کثیرالمذاہب سیکولر جمہوریت میں، مساوی شہریت کے حقوق فراہم کرنے والے آئین کے ساتھ جی رہے ہیں ۔
کئ موقعوں پر، ملک کے اعلی ترین حکومتی اداروں نے انہیں سخت مایوس کیا۔ متعدد انکوائری کمیشن کی رپورٹیں اس کا بین ثبوت ہیں۔
ان تمام نا انصافیوں کے باوجود بھی ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کے ادارے خصوصا اعلٰی عدالتوں پر اب بھی بھروسہ رکھتا رہا ہے ۔
مسلمانوں کو یہ معلوم تھا کہ ایودھیا تنازعہ نے بے مثال حمایت اور ووٹوں سے موجودہ بر سر اقتدار پارٹی کو کتنی غیر معمولی توانائی فراہم کی ہے۔
اس حد تک کہ یکے با دیگرے تمام اداروں نے حکمرانوں کے آگے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ۔
بے یار و مدد گار مسلمانوں کو یہ صاف صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان ڈھہتے اور رینگتے اداروں کے سامنے ہندوؤں کا روشن خیال، سیکولر طبقہ بھی اب کمزور پڑنے لگا ہے۔ اور ایسے سیکولر ہندوؤں کا تناسب وز بہ روز گھٹتا جا رہا ہے۔صرف بڑے اداروں میں ہی نہیں بلکہ سماجی حلقوں ،میں روز مرہ کی زندگی میں، عوامی مقامات ،بسوں، ٹرینوں ،ہوائی اڈوں، اسکولوں، کالجوں، دفتروں میں، ہر جگہ، مسلمانوں کے خلاف دشمنی ظاہر کی جا تی ہیں۔اس طرح کی زہر آلود نفرتیں شوشل میڈیا پر زیادہ ہیں۔
اگر ایودھیا تنازعہ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو ایک بڑے مہلک خطرے کا اندازہ تھا اسی لئے مسلمان 9 نومبر 2019 کو اپنے گھروں میں بند رہ کر اپنے حفظ و امان کی دعا کر رہے تھے۔ پھر بھی، عدالت عظمی میں ان کے یقین کو دیکھتے ہوئے،ان میں سے زیادہ تر نے یہ اندازہ لگایاتھا کہ عدالت عظمی کو ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دینے کے لئے کافی ثبوت نہیں ملے ہیں ۔
6 دسمبر 1992 کے جرائم کو قبول کرتے ہوئے بالآخر انھیں طاقتوں کے حق میں فیصلہ دیا جنھوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔اور یہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔اور وہ بدلتے بھارت کے اس حقیقت کے ساتھ اپنے آپ کو جینے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔جب وہ کہتے ہیں ’’ آگے بڑھو ‘‘ ، تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے۔
اس فیصلے کے تجزیاتی حصے میں کئی اہم باتیں ہیں ،پھر بھی اس فیصلے سے جن گہری خامیوں اور تضادوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس احساس کو آگے بڑھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس حقیقت کے ساتھ مصالحت کرنی ہوگی کہ وہ عملی سطح پر در حقیقت دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں ۔کسی بھی سیاسی پارٹی نے اتنی ہمت نہیں جٹائی کہ فیصلے کی خامیوں اور تضادات کو اجاگر کر سکے۔
سبریمالامعاملہ، جو کہ عدالت عظمی کی ایک اعلی بنچ سے منسوب ہے، وہ اس کے تضاد کو اور بھی صاف طریقے سے واضح کرتا ہے۔اس پہلو کو بھی 9 نومبر 2019 کو خارج کر دیا گیا ۔مسلمانوں کے لئے اب یہ ملک ایک ہندو راشٹریہ ہے خواہ کسی بھی طرح کا آئین نفاذ میں ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک حصہ فیصلے میں گہری خامیوں کے خلاف خاموش احتجاج کرتے ہوئے ٹوکین کے طور پر ملنے والی پانچ ایکڑ زمین(ممکنہ طور پر سابق متنازع فیہ سے دور دی جانے والی ) کو ٹھکرا دینا چاہتاہے۔ اور عدالت عظمی میں ریویو پیٹیشن داخل کرنے کے خلاف ہے۔ حالاں کہ دوسرے لوگ بھی ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ اس زمین کے ٹکڑے کو قبول کرکے امن و امان قائم کی جائے۔ گرچہ ان امن پسند لوگوں کو بھی یہ اندیشہ ہے کہ یہ پانچ ایکڑ زمینیں ان اکثریت کی جو بھوک ہے اسے نہیں مٹا سکتی۔
کئی سارے کٹر پنتھی شر پسندوں کے پاس بازیابی کے لئے تاریخی مقامات کی ایک لمبی فہرست ہے اور یہ فہرست کاشی اور متھرا تک ہی محدود نہیں ہے۔صرف اور صرف خوف زدہ اور محکوم (subjugated) مسلمان ہی حقیقی طور پر انہیں مطمئن کر سکتے ہیں اور ایسے عناصر اب محض سماج و حکومت کے محض حاشیہ تک محدود نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کئی مسلمان 9 نومبر 2019 کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں نظر ثانی کے لئے مقدمہ داخل کرنے کے آئیڈیا کے خلاف تھے۔ یہ فیصلہ ،اپنے مضمرات میں ایودھیا مسئلہ کو محض ہندو مسلم معاملے تک محدود کر دیا ۔سیکولر ہندوستانی، مستقبل میں اس "ہندو راشٹر" کے خلاف جنگ لڑنے اور سیکولر ہندوستان کی بازیابی کے لئے ایک طاقت بن سکتے ہیں۔اگر ایساہی ہوتا ہے تو مسلم سماجوں کا مستقبل ان قوتوں اور تحریکوں میں ب بہ حیثیت شہری، شامل ہونے میں مضمر ہے، نہ کہ حض مسلمان کی حیثیت سے۔
یہ صورتحال 1974 میں ریلیز ہونے والی فلم، ’گرم ہوا‘، کے بلراج ساہنی کے ادا کردہ کردار کی یاد دلاتاہے۔ کہانی کا یہ لاچار، بے بس، اور بے یارو مددگار کردار، بالآخر، بائیں محاذ سے منسلک، مزدور طبقہ کے ایک جلوس میں شامل ہو جاتا ہے ۔فی الوقت تو یہ استعاراتی آپشن بھی بہ مشکل ہی دکھائی دیتا ہے۔