نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اگست, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

یزید

سعادت حسن منٹوؔ  کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ  ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔

جوہر یونی ورسٹی کے لئے قانون سازی کی تاریخ، اعظم خان کی سیاست، اور مسلمان، قسط دوم

پروفیسر محمد سجاد، محمد ذیشان احمد اس ضمن میں اس کا تذکرہ ضروری جان پڑتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اقلیتی status کی ایجیٹیشن 1965 سے 1981 تک اپنے نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ اس کا تعلق شروع میں محض اس بات سے تھا کہ اے ایم یو کے انٹرنل اسٹوڈنٹس کا کوٹا جو بدرالدین طیب جی نے 75 فی صد کرنے کا کہا تھا، اسے ان کے بعد کے وائس چانسلر علی یاور جنگ نے 50 فی صد پر لا دیا۔ اور اس کی مخالفت طلبا نے شروع کی۔ جو 1970 کی دہائ میں، ملک گیر پیمانے پر، تمام مسلمانوں کی بقا کی تحریک بنا دی گئ۔

راحت بھائی: روز کا ہی ساتھ

چِنمے مشرا  راحت بھائی کے ایک شعری مجموعہ کا عنوان ہے ’میرے بعد‘۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے چلے جانے کے بعد وہ پہلے سے بھی زیادہ ہمارے ساتھ ہو گئے ہیں۔ آدمی جب آپ کے نزدیق ہوتا ہے، آس پاس ہوتا ہے تو وہ ہوتا تو ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتا۔ نظر نہ آنے کے بعد وہ محسوس ہونے لگتا ہے، وہ آپ کا ہی نہیں، آپ کی پرچھائ کا بھی حصہ بن جاتا ہےجو ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس کراتی رہتی ہے۔ راحت بھائی سے پہلی ملاقات ملکی وے ٹاکیز کے احاطے کی سائن بورڈ پینٹنگ کی دوکان میں ہوئی تھی۔ تب وہ اس کام کو چھوڑ چکے تھے۔ وہاں ان کی بیٹھک موہن پینٹر کی دوکان پر تھی۔ 

جوہر یونی ورسٹی کے لئے قانون سازی کی تاریخ، اعظم خان کی سیاست، اور مسلمان، قسط اوّل

پروفیسر محمد سجاد، محمد ذیشان احمد بھگوائ اکثریت پرست شاذنیت کے عہد میں مسلم سیاست اور اس کی سیاسی و دانشور راہنمائ کے کردار کا محاسبہ اور تجزیہ ایک اہم کام ہے۔ اتر پردیش کو ہندوستانی سیاست کا مرکز یا دل، یعنی، heartland کہا جاتا ہے۔ کانگریس کے زوال کے بعد کے عہد کی سیاست میں اعظم خاں اتر پردیش کے اہم ترین سیاسی رہنما بن کر ابھرے۔ یوگی حکومت، بلا شبہہ ان کی مسلم شناخت کی وجہ سے ہی ان کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کے خلاف جو شدید کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ یقیناً ان پر عائد الزامات کے تنا سب میں بہت زیادہ ہے۔ 

سر محمد اقبال

پطرس کے انگریزی مضمون کا ترجمہ از صوفی ریاض حسین (بشکریہ: ریختہ) ’’وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا۔‘‘ اقبال کی وفات سے ہندوستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ با عظمت ہستی سے محروم ہو گیا۔ وہ بطور ایک عالم اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم بھی ان لوگوں کے لئے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے، منبع فیض وجود تھا۔ بطور شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر و نفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک بہت بڑا شارح چھن گیا ہے وہاں اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی دراز مدت کے لئے اہمیت اور منزلِ مقصود چھن گئی۔

ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ

سعادت حسن منٹو ہم ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں، ہندوستان کو اس چیز سے بچاؤ، اس چیز سے بچاؤ، مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ان لوگوں سے بچانا چا ہیئے جو اس قسم کا شور پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ شور پیدا کرنے کے فن میں ماہر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر ان کے دل اخلاص سے بالکل خالی ہیں۔ رات کو کسی جلسے میں گرما گرم تقریر کرنے کے بعد جب یہ لوگ اپنے پرتکلف بستروں میں سوتے ہیں تو ان کے دماغ بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان کی راتوں کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرا کہ ہندوستان کس مرض میں مبتلا ہے۔ در اصل وہ اپنے مرض کے علاج معالجے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انہیں اپنے وطن کے مرض کے بارے میں غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

آم (سعادت حسن منٹو)

 خزانے کے تمام کلرک جانتے تھے کہ منشی کریم بخش کی رسائی بڑے صاحب تک بھی ہے۔ چنانچہ وہ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ہر مہینے پنشن کے کاغذ بھرنے اور روپیہ لینے کے لیے جب وہ خزانے میں آتا تو اس کا کام اسی وجہ سے جلد جلد کردیا جاتا تھا۔ پچاس روپے اس کو اپنی تیس سالہ خدمات کے عوض ہر مہینے سرکار کی طرف سے ملتے تھے۔ ہر مہینے دس دس کے پانچ نوٹ وہ اپنے خفیف طور پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑتا اور اپنے پرانے وضع کے لمبے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیتا۔ چشمے میں خزانچی کی طرف تشکر بھری نظروں سے دیکھتا اور یہ کہہ کر’’اگر زندگی ہوئی تو اگلے مہینے پھر سلام کرنے کے لیے حاضر ہوں گا‘‘ بڑے صاحب کے کمرے کی طرف چلا جاتا۔