نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جوہر یونی ورسٹی کے لئے قانون سازی کی تاریخ، اعظم خان کی سیاست، اور مسلمان، قسط اوّل


پروفیسر محمد سجاد، محمد ذیشان احمد

بھگوائ اکثریت پرست شاذنیت کے عہد میں مسلم سیاست اور اس کی سیاسی و دانشور راہنمائ کے کردار کا محاسبہ اور تجزیہ ایک اہم کام ہے۔ اتر پردیش کو ہندوستانی سیاست کا مرکز یا دل، یعنی، heartland کہا جاتا ہے۔ کانگریس کے زوال کے بعد کے عہد کی سیاست میں اعظم خاں اتر پردیش کے اہم ترین سیاسی رہنما بن کر ابھرے۔ یوگی حکومت، بلا شبہہ ان کی مسلم شناخت کی وجہ سے ہی ان کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کے خلاف جو شدید کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ یقیناً ان پر عائد الزامات کے تنا سب میں بہت زیادہ ہے۔ 

موجودہ اتر پردیش حکومت کے مسلم مخالف مظالم تو اب راز بھی نہیں رہے۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ (7 جولائ 2017) نے بھی اجے بشٹ یعنی آدیتیہ ناتھ کو "فائر برانڈ پر تشدد یوگی"  کہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس حکومت کی کارروائی قانون شہریت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں مسلمانوں کے خلاف پولس بربریت، جرمانہ عائد کرنا، جیل، اور جائدادوں کا قرق ضبط کیا جانا، اور کورونا لاک ڈاؤن کے دوران غریب مسلمان ہاکروں کے خلاف جو مظالم ڈھائے گئے، ان سب سے یوگی حکومت کا مسلم مخالف تشدد عیاں اور  ثابت ہے۔ اعظم خاں کے خلاف کارروائی بھی انہیں مظالم کی سیریز کا حصہ ہے۔ ان مظالم کے خلاف احتجاج بھی ضروری ہے۔ 

لیکن مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے ان احتجاجوں میں بعض لوگ (بہ شمول، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چند طلبا) یہ بیانیہ بھی مقبول کرانا چاہ رہے ہیں کہ اعظم خاں مسلمانوں کے عظیم مسیحا ہیں اور ان کی پرائیویٹ یونی ورسٹی کی قانونی حیثیت کے سلسلے میں بھی خاصہ کنفیوزن برقرار ہے۔ اس مضمون کی معرفت اس قانونی و سیاسی کنفیوزن کو دور کرنے کی ایک ادنی کوشش کی جا رہی ہے۔

محمد علی جوہر یونی ورسٹی، رام پور، قانون 2005 بننے کی تاریخ اور اس کے نشیب و فراز پر گفتگو ضروری ہے۔

سب سے پہلے 2004 میں اتر پردیش اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا۔ یہ بل صوبائ حکومت کی یونی ورسٹی کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن اس بل میں کچھ ایسی تجویزیں تھیں جن کے تحت، تمام اختیارات پرو چانسلر کے ہاتھ میں تھا، وہ پرو چانسلر اعظم خان مدت العمر بنے رہنا چاہ رہے تھے۔ ظاہر ہے، کہ اس کے خلاف شدید احتجاج ہوا۔ اتر پردیش کی یونیورسٹیز ایکٹ 1973 کے مطابق، صوبائ حکومت کی سبھی یونیورسٹیوں کے چانسلر صوبے کے گورنر ہوتے ہیں، وائس چانسلر اور دیگر افسروں کے اختیارات، تعیناتی کی مدت، وغیرہ، واضح ہوتے ہیں۔ لہذا یہ بل آں وقتی صدر جمہوریہ عبدالکلام صاحب  کو بھیج دیا گیا۔ ان کے قانونی مشورے آئے، ان میں ایک مشورہ یہ بھی تھا کہ پرو چانسلر کی مدت پانچ سال کی ہوگی، جو، اعظم خاں کو منظور نہیں تھی، اور یہ بل پاس ہو کر ایکٹ میں تبدیل نہیں ہو سکا۔ 

سنہ 2005 میں پچھلے بل کو واپس لے کر نیا بل پیش کیا گیا لیکن اب یہ بل پرائیویٹ یونی ورسٹی کے لئے پیش کیا گیا۔ اس پرائیویٹ یونیورسٹی کے تمام اختیارات چانسلر کے ہاتھوں میں مرکوز کردئیے گئے، اور یہ چانسلر وہی ہوں گے، جو شخص جوہر ٹرسٹ کا سربراہ(چیئر مین)  ہوگا، یعنی، اعظم خاں  خود چانسلر ہوں گے۔ اس نئے بل 2005 میں بھی آئین ہند کے آرٹکل 30 کے تحت جوہر یونی ورسٹی کو اقلیتی یونی ورسٹی بنانے کی بات نہیں کی گئ۔ اسی آرٹکل کے تحت کوئ تعلیمی ادارہ داخلوں میں اقلیتوں کی پچاس فی صد نشستیں مختص کر سکتا ہے اور اس کا ذکر کرنا وہ شخص (اعظم خاں) بھول گئے، جو نہ صرف قانون کے گریجوئیٹ ہیں، بلکہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے منتخب سکریٹری بھی رہ چکے ہیں، اور مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی جدو جہد، احتجاج، کے لیڈر بھی رہ چکے ہیں، بلکہ، یہ لیڈر بنے ہی ہیں اس احتجاج کی وجہ سے۔ اعظم خان، بی اے آنرس، ایل ایل بی، علیگ، کو یہ بھی معلوم ہے کہ 1970 کی دہائ میں جو احتجاجات ان لوگوں نے کئے اور جو قانون 1981 میں اے ایم یو کے لئے ترمیم ہو کر بنا، اس میں بہت واضح اقلیتی کردار، یعنی، مسلمانوں کے لئے داخلوں میں، 50 فی صد ریزرویشن اب بھی نہیں ملا۔ اس تجربے کے باوجود اعظم خاں اپنی جوہر یونی ورسٹی کے تعلق سے، آرٹکل 30 کے تحت اقلیتی پرائیویٹ یونیورسٹی بنانا ضروری کیوں نہیں سمجھا؟ 

دریں اثنا، امیٹی یونی ورسٹی کا بل ایک پرائیویٹ یونی ورسٹی کے طور پر منظور ہو کر قانون ، یعنی، ایکٹ  2004  پاس ہو گیا۔ وہ پرائیویٹ یونی ورسٹی  اپنے تعلیمی معیار کے لئے  اب قدرے معروف ہو چکی ہے۔ 

جب رام پور میں  جو ہر یونی ورسٹی کے لئے زمینیں قبضہ کرنے کا قضیہ آیا، تب جا کر اعظم خاں نے اس پرائیویٹ یونی ورسٹی کو مسلم اقلیتی کردار والی یونی ورسٹی بنانے کی تدبیریں شروع کر دیں، تاکہ یہ کسانوں یا دیگر مالکوں کی زمین کا مسئلہ نہ رہ کر یہ مسلمان قوم کی تعلیم کا مسئلہ، بہ آسانی  بنا دیا جاسکے، اور زمینیں قبضہ کرنا زیادہ آسان ہو جائے۔ یعنی، ایک afterthought کے طور پر کوشش کی گئ کہ 2007 میں اس بل میں ترمیم  کروا لی جائے، اور اسے اقلیتی ادارہ کی قانونی حیثیت دلوائ جائے۔ اس درمیان زمینوں کو لے کر زمین مالکوں کی جانب سے اعظم خاں کے خلاف اعتراض، احتجاج، مقدمے، وغیرہ، جاری رہے۔ اعظم خاں 2012 میں نیشنل کمیشن فار مائینوریٹی ایجوکیشن آف انڈیا یعنی NCMEI میں چلے گئے، جس نے مئ 2013 میں انہیں مائناریٹی یعنی اقلیتی کردار فراہم کیا۔ جوہر یو نی ورسٹی کے بل اور قانون کو لے کر بجا طور پر جو شبہات بر قرار رہے، اس کی بنا پر آں وقتی گورنروں، ٹی وی راجیشور اور بی ایل جوشی صاحبان، نے جوہر یونی ورسٹی قانون میں بعد از وقت ترمیم کو منظوری نہیں دی۔ جولائ 2014میں اترکھنڈ کے گورنر عزیز قریشی صاحب نے   کارگزار گورنر اتر پردیش کی حیثیت سے اس ترمیم کو منظوری دے دی۔ 

یہ تفصیلات، اعظم خان کی نیت کو واضح کر نے کے لئے کافی ہیں۔ 

جوہر یونی ورسٹی قانون (ایکٹ 2005) کے مطابق جوہر ٹرسٹ کا چیئرمین ہی جوہر یونی ورسٹی کا چانسلر ہوگا، اور چانسلر ہی مختار کل، مطلق العنان حاکم ہوگا؛ دیگر سبھی افسران و ملازمین، بہ شمول، وائس چانسلر، مکمل طور پر، چانسلر کی مرضی اور خواہش کے رہین منت ہونگے۔ قانون کا ایک حصہ 6، 1، i کے مطابق، اردو، فارسی و عربی زبانوں کی ترقی کی بات کی گئ ہے، لیکن، یہ ترقی کس طرح ہوگی، کیا طلبا و طالبات  کے لئے اردو پڑھنا لازمی ہوگا، کیا اساتذہ کی تقرری میں اردو جاننا شرط ہوگی، ایسی کوئ وضاحت یا شرط نہیں ہے۔ قانون کا اگلا حصہ کہتا ہے کہ مسلم اقلیتوں کو مین اسٹریم میں شامل کیا جائے گا۔ یاد رہے، یہ سب کچھ، آئین  میں اقلیتی حقوق و اختیارات سے متعلق، کے آرٹکل 30 کا حوالہ دیئے بغیر یہ سب کچھ لکھا گیا ، اس بل اور جوہر یونی ورسٹی ایکٹ 2005 میں ۔ 

اعظم خان کے اس بل 2004 اور پھر دوسرا بل 2005 جو پاس ہو کر ایکٹ 2005 بن گیا، میں اقلیتی کردار کا ذکر نہ کرنے کی “بھول” کچھ شبہات و سوالات کھڑے نہیں کرتے؟ کیا ہم اپنے دانشوروں سے یہ سوال نہیں کر سکتے کہ جوہر یونیورسٹی بل اور قانون کی سیاست  کے تعلق سے 2004، 2005، 2007، اور 2013 میں کھیلے جانے والے کھیل کو بے نقاب نہیں کرنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہمارے وہ دانشور جو ہمیں قانون سمجھنے میں مدد کرتے ہیں، کیا، ان سے ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اس کنفیوزن کو دور کرنے کے بجائے خاموشی کیوں اختیار کر لی؟ 

(آئندہ جاری)

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...