اس ضمن میں اس کا تذکرہ ضروری جان پڑتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اقلیتی status کی ایجیٹیشن 1965 سے 1981 تک اپنے نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ اس کا تعلق شروع میں محض اس بات سے تھا کہ اے ایم یو کے انٹرنل اسٹوڈنٹس کا کوٹا جو بدرالدین طیب جی نے 75 فی صد کرنے کا کہا تھا، اسے ان کے بعد کے وائس چانسلر علی یاور جنگ نے 50 فی صد پر لا دیا۔ اور اس کی مخالفت طلبا نے شروع کی۔ جو 1970 کی دہائ میں، ملک گیر پیمانے پر، تمام مسلمانوں کی بقا کی تحریک بنا دی گئ۔
اس پورے معاملے پر فرانس کی دو مختلف محققین، وائلٹ گراف (1990) اور لارنس گوتئیر (2019) نے طویل تحقیقی مضامین شائع کئے ہیں۔ یہ بھی اہم پہیلی ہے کہ 1970 کی پوری دہائ میں چلنے والی یہ تحریک، 1974 سے 1977 کے درمیان خاموش سی تھی (شاید ایمرجنسی کی وجہ سے)، حالاں کہ ، ملک کے دیگر کیمپسوں میں تو یہی وقفہ زیادہ ابال کا دور تھا۔
اس دہائ کی اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی تحریک نے مسلم نوجوان لیڈروں کی ایک کھیپ تیار کی، ٹھیک اسی طرح، جیسے ایمرجنسی مخالف تحریک نے سوشلسٹ (یا جات پات والی) اور بھگوائ نوجوان لیڈروں کی ایک نئ کھیپ تیار کر دی۔
بہر کیف، اس طویل تحریک کے باوجود، مسلم یونی ورسٹی کو اقلیتی status نہیں ملا۔ یعنی بہت واضح طور پر، 50 فی صد ریزرویشن کا اختیار نہیں ملا۔ سنہ 1981 کے اس ایکٹ کے 5، 2، c کے تحت، تعلیمی و تہذیبی ترقی کا ایک پروویژن یا کھلونا یا جھنجھنا بجانے کو دے دیا گیا، اور اسی کو اقلیتی کیریکٹر (کردار ) مان لیا گیا۔ مسلم رہنماؤں ، بہ شمول، سید شہاب الدین (1935-2017) نے، اس ایکٹ سے بے اطمینانی کا اظہار کیا اور برملا طور پر کہا کہ یہ اقلیتی status نہیں ہے۔ اور یہ کہ زیادہ سے زیادہ اسے اقلیتی "کیریکٹر" کہا جا سکتا ہے۔
وکیل اور نیتا، اعظم خاں کو ان تمام باتوں کی پوری سمجھ تھی۔ ان سب کے باوجود، جوہر یونی ورسٹی کے بل کے مسودے میں ان تجربات کا فائدہ اٹھانے کے بجائے نہایت خود غرضانہ طور پر ، مجوزہ یونی ورسٹی پر مدت العمر قبضہ جمائے رکھنے کا ہربہ اپنا ئے رکھا۔ یہ دہرا دینا یہاں مناسب ہے کہ 2004 میں گورنمنٹ یونی ورسٹی کے بل کے ذریعے جب ذاتی ملکیت اور اجارہ داری ممکن نہ ہوسکی تو، پھر سنہ 2005 ء میں پرائیویٹ یونی ورسٹی کا ایکٹ پاس کروایا، لیکن، پھر بھی ، اسے اقلیتی status قطعی نہیں دلوایا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں نے جوہر یونی ورسٹی کے ایکٹ کے اس کھیل کو بے نقاب کیوں نہیں کیا؟ عوام کو اس کھیل سے آگاہ کیوں نہیں کروایا؟ یاد رہے، کہ 2005ء میں ہی، جب مسلم یونی ورسٹی نے اپنے میڈیکل کالج میں 50 فی صد سیٹیں مسلمانوں کے لئے ریزرو کی تو الہ آباد ہائ کورٹ نے اسے رد کر دیا۔ اس وقت مسلم یونی ورسٹی کے چانسلر، سابق چیف جسٹس آف انڈیا، تھے، وائس چانسلر ایک آئ اے ایس افسر تھے جو لا گریجوئیٹ بھی تھے اور نچلی عدالت کے جج رہ چکے تھے۔ اس وقت کے رجسٹرار بھی لا کے پروفیسر تھے، جو ان دنوں قانونی معاملات کے معروف ترین کالم نگار اور یو ٹیوبر بھی ہیں۔ وہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
لیکن ٹھیک اسی سال، قانون کے گریجوئیٹ، سابق اسٹوڈنٹ لیڈر، اور سینیئر وزیر، اعظم خان، ان تمام باتوں سے خود کو بہ ظاہر بے خبر رکھتے ہوئے اپنی ذاتی ملکیت، پرائیویٹ یونی ورسٹی کو آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت، اقلیتی درجہ نہ لینے پر مصر رہے، یعنی نئے بل کے مسودے میں بھی آرٹکل 30 کا ذکر انہیں گوارا ہی نہیں تھا۔ اور مسلم دانشور اعظم خاں کے اس کھیل کو بے نقاب کرنے کی ذمہ داری سے بھاگتے رہے۔
واضح رہے کہ 2008 ء میں مغربی بنگال حکومت نے عالیہ یونیورسٹی کو ’گورنمنٹ کنٹرولڈ خود مختار یونیورسٹی‘ قرار دیا۔ سنہ 2009 ء میں اتر پردیش حکومت نے خواجہ معین الدین یونی ورسٹی (لکھنؤ) قائم کی، جس میں اردو، فارسی و عربی زبانوں کی ترقی کی خصوصی تجویز رکھی گئ ہے۔ بہار حکومت نے 1998ء میں ہی مظہرالحق کے نام پر ایسی یونی ورسٹی بنا رکھی ہے، جس میں تقریباً تمام طرح کے پروفیشنل کورسز چل رہے ہیں۔ جوہر یونی ورسٹی کا بل تو انٹگرل یونیورسٹی لکھنؤ کی طرز کا اقلیتی کردار بھی لینے سے بھاگتا رہا، جب کہ پرائیویٹ انٹگرل یو نی ورسٹی سنہ 2004 ء سے ہی قائم ہے۔
جب اعظم خاں کو زمینیں حاصل کرنی مشکل ہو رہی تھیں، یا حاصل شدہ زمینوں پر غصب اور غبن اور دھوکہ اور مکاری سے زمینیں غصب کرنے کے الزامات لگنے لگے، یہاں تک کہ شیعہ وقف کی اور صوبائ حکومت کی زمینیں بھی قبضہ کرنے کا الزام ہے، اعظم خاں پر۔ تب جا کر، زمینوں کے لئے انہوں نے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے اس یونی ورسٹی کے لئے اقلیتی کردار لینے کی کوشش شروع کی اور جوہر یونی ورسٹی ایکٹ میں ترمیم کروانا چاہی۔ جب اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو پائی، تب، انہوں نے 2012 میں نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن آف انڈیا، یعنی ، این سی ایم ای آئ سے رجوع کیا، اور مئ 2013 ء میں وہاں سے مائناریٹی status حاصل کیا۔
غالبا، انہیں شبہات کی وجہ سے جوہر یونی ورسٹی ایکٹ میں ترمیم کو گورنروں کی منظوری نہیں مل پا رہی تھی، جو انہیں جولائ 2014ء میں کارگزار گورنر، عزیز قریشی، نے دے دیا۔
مقامی لوگوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ شیعہ وسیم رضوی انہیں کا خاص آدمی تھا جس کا استعمال وہ شیعہ وقف کی زمینوں اور جائیدادوں کی لوٹ مچانے کے لئے کیا کرتے تھے۔ وقف والی یہ زمینیں زیادہ تر نواب رام پور کی ہوا کرتی تھیں، یا انہیں کی وقف کی ہوئیں تھیں۔
یہ اور بات ہے کہ ، بی جے پی کی حکومت میں وسیم رضوی، اعظم خاں سے پلہ جھاڑ کر، بی جے پی حکومت کا آدمی بن گیا ہے، اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے مسلم مخالف بھڑکاؤ بیانات دیتا رہتا ہے۔
دلتوں اور دیگر غریب مسلم کسانوں نے بھی الزام لگایا ہے کہ جوہر یونی ورسٹی کے مین گیٹ اور اس کے آس پاس کی زمینیں انہیں سے، یا تو مکاری سے، یا دھمکا کر، لے لی گئیں ہیں، یا اونے پونے، خرید لی گئیں ہیں۔
اس سلسلے میں رام پور ضلع عدالت نے بھی اعظم خاں کے خلاف 2 اگست 2021 کو فیصلہ سنایا ہے، اور جرمانہ وغیرہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
اعظم خاں بھڑکاؤ تقریروں اور متنازعہ بیانات کے لئے بھی بد نام ہیں۔ ان کے ساتھ، ان کی وزارت میں کام کرنے والے افسروں کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں یہ شکایت ہے کہ خاں صاحب افسروں کو ذلیل کرتے رہتے ہیں، ان پر بھونڈے طنز اور پھبتیاں کستے رہتے ہیں۔ اگر اس بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا جائے کہ اس بات کی جانکاری عام نہیں ہے، تو مظفرنگر فسادات (ستمبر 2013) میں بھی ان کا رول بہت مشتبہ تھا۔ اکھیلیش کی حکومت (2012-2017) میں اعظم خاں ، وزیر اعلی کے بعد، دوسرے سب سے طاقت ور شخص سمجھے جاتے تھے۔ خاں صاحب مظفرنگر معاملات کے بھی وزیر تھے۔
جولائ اگست 2013 سے ہی یہ لگنے لگا تھا کہ مغربی اتر پردیش میں فسادات پھو ٹینگے۔ اس دوران حکومت کو خفیہ خبریں بھی مل رہی تھیں کہ ماحول میں تناؤ اور تشدد پیدا ہو رہا ہے۔ لڑکیوں سے چھیڑ خانی کے معاملات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر رہے تھے۔ پولیس تھانہ کے قریب بھی ایسے واقعات ہو رہے تھے لیکن پولیس کا استعمال کر کے اکھیلیش حکومت ان پر کارروائ کروانے کا منشا نہیں دکھا رہی تھی۔ مہا پنچایتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اور اس طرح انتظامیہ خود فساد چاہ رہی تھی، یہ واضح ہو رہا تھا۔
جولائ 2013 میں کادل پور، گریٹر نوئیڈا، میں غیر قانونی زمین پر، ایک مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی۔ اس کو روکنے گئیں، ایس ڈی ایم، آئ اے ایس افسر، درگا شکتی ناگ پال۔ ان کو اسی جائے واردات پر چند منٹوں کے اندر معطل کروا دیا گیا۔ یہ کام اعلانیہ طور پر سماج وادی پارٹی کے ایک معمولی علاقائی کارکن نے کروایا۔ ناگ پال کے خلاف بالو مافیا بھی کارروائی چاہتی تھی۔ لیکن عام ہندوؤں کو یہ بات ناگوار گزری کہ کیا مسلمانوں کی اتنی وقعت ہو گئ ہے کہ آئی اے ایس افسر کو چند منٹوں میں معطل کروا دیا جائے گا، صرف اس لئے کہ وہ ان کے غیر قانونی کام کو روک رہی تھی؟ سماج وادی پارٹی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ زمین پر کس قسم کی تبدیلی رونما ہو چکی تھی۔ اکھیلیش کے حکومت میں آتے ہی، 600 سے زیادہ چھوٹے یا بڑے فرقہ وارانہ فسادات یا واقعات ہو چکے تھے۔ راقم نے اس دوران 5 اگست 2013 کو اپنے ریڈف ڈاٹ کام کے کالم میں اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا کہ ناگ پال معاملے کے بعد فساد بھڑکنے کے شدید امکان بن چکے ہیں۔ بد قسمتی سے، صرف پانچ ہفتوں بعد ہی یہ اندیشہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا، اور فسادات پھوٹ پڑے۔
شاید سماج وادی پارٹی کا ایک گندہ منصوبہ تھا، (راقم نے اس اندیشے کا اظہار بھی کر دیا تھا) وہ غالبا یہ تھا کہ:
فسادات کے نتیجے میں، لوک دل کے جاٹ فرقہ واریت کے مارے بی جے پی کی جانب چلے جائیں گے، اور بی ایس پی کے مسلمان سماج وادی کی طرف آ جائیں گے، اور اس طرح یہ کھیل سیدھا سماج وادی اور بی جے پی کے آمنے سامنے کا ہو جائے گا، اور سموجوادی پارٹی چوں کہ عنان حکومت سنبھال رہی تھی اس لئے وہ معاوضے اور ہرجانے کی ادائیگی کا کھیل کر کے مسلمانوں کو اپنی جانب رکھ لے گی۔ یہ سارا کھیل تھا، لوک سبھا 2014ء میں زیادہ سیٹیں جیت کر ملائم سنگھ یادو کو وزیر اعظم بنوانے کا۔ یہ قیاس اس لئے بھی تھا کہ ملائم کی خفیہ میٹنگ وی ایچ پی کے اشوک سنگھل سے ہوئ تھی ۔
ان تمام معاملات اور منصوبوں کا انکشاف سجن کمار اور سودھا پائی کی کتاب (2018)، ایویری ڈے کمیونلزم Everyday Communalism میں بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔
سنہ 2013 سے قبل ، 1999 ء میں بھی ، سماج وادی پارٹی پر بی جے پی سے خفیہ الائنس (سانٹھ گانٹھ) کا الزام لگا تھا، اور سنہ 2007 ء میں بھی کلیان سنگھ سے ہاتھ ملانے کی بات عام ہو گئ تھی۔
اعظم خاں ان سب سازشوں میں اپنے آقا ملائم کے ساتھ شامل تھے، کیوں کہ وہ اپنی بیوی کو راجیہ سبھا اور بیٹے کو ودھان سبھا بھیج چکے تھے۔ انہوں نے رامپور سے کسی اور مسلم لیڈر کو سماجوادی پارٹی کے اندر سے ابھرنے ہی نہیں دیا، سب کچھ اپنے گھر کے اندر ہی رکھ لیا۔ ایک اور راجیہ سبھا کی سیٹ انہوں نے ویدیشا ، مدھیہ پردیش سے ، منور سلیم کو لاکر راجیہ سبھا میں بیٹھا دیا (2012-2018) ، لیکن، کسی مقامی سماجوادی پارٹی کارکن کو وہ سیٹ نہیں لینے دی۔ اس پر بھی کافی وا ویلا مچا تھا۔
(فسادات متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے اعظم خاں یوروپ سیاحی پر چلے گئے؛ اس پر بھی کافی تنقید ہو ئ تھی)۔
نومبر 2015 میں اعظم خاں نے آر ایس ایس کے خلاف لواطت کا الزام لگایا، اس پر معاملہ ناگزیر طور پر بھڑک گیا۔ انتقاماً ہندو مہا سبھا کے کملیش تیواری دسمبر 1، 2015 ، کو اہانت رسول کی گستاخی کر بیٹھا۔ ملک بھر میں اعظم خان کے خلاف احتجاج تو بالکل نہ کیا مسلمانوں نے، لیکن ان لوگوں نے کملیش تیواری کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ مودی حکومت آ چکی تھی۔ کئ جگہ تناؤ اور فسادات کا ماحول بن گیا۔ کلیا چک، مالدہ (مغربی بنگال) فساد، جس میں پولس تھانہ نذر آتش کر دیا گیا، بھی اسی کا نتیجہ تھا۔
مندرجہ بالا تفصیلات ہمیں متنبہہ کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی لیڈرشپ کا تنقیدی جائزہ لینا چاہئے۔ کیوں بیش تر موقعوں سے اس طرح کے موقعہ پرست لیڈر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں؟
یہ سچ ہے کہ اعظم خاں کو ان کی مسلم شناخت کی بنا پر ستایا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج ہو۔ لیکن احتجاج کرنے والے ان کو عظیم مسیحا بنا کر نہ پیش کریں۔ ان کی منافع کمانے والی پرائیویٹ بزنس انٹر پرائز ، جوہر یونی ورسٹی، کو پورے صوبے یا پورے ملک کے مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کے بجائے، احتجاج کرنے والے یہ طلبا اور دانشور، صحافی اور کالم نگار، عام ہندوستانیوں اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایمانداری سے یہ بھی باور کرائیں کہ مسئلے کی تفصیلات اور باریکیاں، اور اس کے حقائق کیا ہیں۔ ان میں کون سے سیاسی کھیل کھیلے گئے ہیں، کون کون سی مکاریوں والے داؤ پیچ کھیلے گئے ہیں، اس کا بھی ادراک اور انکشاف رہے ، تو قوم محض جذبات میں نہیں بہہ جائے گی۔
ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی گندی سیاست کا عظیم خسارہ مسلم اقلیتوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ان کی مظلومیت کی کہانی کی عدم اعتمادی کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔ یعنی، اکثریت پرست شاذنیت کے خلاف لڑی جانے والی لڑائ کمزور پڑتی ہے۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ صوبے کے آئندہ اسمبلی انتخابات 2022 میں مسلمانوں کے لئے محدود آپشن ہیں۔ یہ تو صرف اکثریت ہندو کو طے کرنا ہے کہ وہ بھگوائی طاقتوں کو ہی بر سر اقتدار رکھنا چاہتی ہے، یا ان سے نجات پانا چاہتی ہے؟ باوجود اس کے کہ بھگوائی طاقتیں ہر محاذ پر بری طرح ناکام اور مضر ثابت ہوئیں ہیں۔ کورونا معاملات میں تو اور بری طرح ناکام ہوئیں ہیں۔
لیکن مسلم رہنمائ کے سوال پر غورو خوض کرنا، ان کا محاسبہ کرنا، ان سے باز پرس کرنا تو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اندھی تقلید کے بجائے، آنکھ، کان اور دماغ کو کھلا اور چوکنا رکھنا نہایت ضروری ہے۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ مزید تاخیر نہایت ضرر رساں ہوگی۔