نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

راحت بھائی: روز کا ہی ساتھ

چِنمے مشرا 

راحت بھائی کے ایک شعری مجموعہ کا عنوان ہے ’میرے بعد‘۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے چلے جانے کے بعد وہ پہلے سے بھی زیادہ ہمارے ساتھ ہو گئے ہیں۔ آدمی جب آپ کے نزدیق ہوتا ہے، آس پاس ہوتا ہے تو وہ ہوتا تو ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتا۔ نظر نہ آنے کے بعد وہ محسوس ہونے لگتا ہے، وہ آپ کا ہی نہیں، آپ کی پرچھائ کا بھی حصہ بن جاتا ہےجو ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس کراتی رہتی ہے۔ راحت بھائی سے پہلی ملاقات ملکی وے ٹاکیز کے احاطے کی سائن بورڈ پینٹنگ کی دوکان میں ہوئی تھی۔ تب وہ اس کام کو چھوڑ چکے تھے۔ وہاں ان کی بیٹھک موہن پینٹر کی دوکان پر تھی۔ 

ہم وہاں مالوہ اتسو کے ہورڈنگ بنوانے جاتے تھے۔ ان کی ٹھہاکے دار موجودگی اور ہورڈنگ بنوانے میں ان کا تخلیقی تعاون ظاہر کرتا تھا کہ فنون لطیفہ کی ان کی سمجھ کتنی رنگ بھری ہے۔ ان سے آخری ملاقات ٢٠١٧ میں چھوٹے بھائی عادل کی تدفین کے دوران چھوٹی کھجرانی قبرستان میں ہوئی تھی۔ تب وہ نہیں ان کے آنسو بول رہے تھے۔ اس دن ان کےٹھنڈے ہاتھوں کا بہت ٹھنڈا احساس آج پھر محسوس ہو رہا ہے۔ راحت بھائی بھی اسی قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ دونوں بھائیوں کے قہقہوں سے قبرستان کی گہرائی شائد ابھی بھی گونجتی رہتی ہو۔ 

ہم نے سیکھی نہیں ہے قسمت سے 

ایسی اردو جو فارسی بھی لگے۔

راحت بھائی کی شاعری کی سب سے بڑی خاصیت شائد یہی تھی کہ وہ ہمیشہ مواصلاتی ہی ہوتی تھی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ آپ ان کی شاعری سے اختلاف بھی کر سکتے تھے۔ سیدھی بات کو وہ سیدھے طریقے سے پیش کرنے کے وہ قائل تھے۔شعر کہنے کا ان کا منفرد انداز آپ کو کہیں اور بھٹکنے نہیں دیتا تھا۔ ساتھ ہی بیچ بیچ میں ان کے آتے جاتے ان کے تبصرے آپ کو شاعری گہرائیوں سے باہر نکال لیتے تھے اور آپ کو ڈوبنے نہیں دیتے تھے۔ شائد وہ چاہتے تھے کہ ہم ان کی شاعری میں ڈوبے نہیں تیریں۔ کچھ محنت کریں۔ پانی کو پہچانیں، روانی کے خلاف تیرنے کی کوشش یعنی انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ جرمنی کے مشہور ڈرامہ نگار برتولت بریخت کہتے ہیں کہ انھیں اچھا نہیں سمجھدادا کار چاہیے ۔ راحت سحاب کو بھی سمجھدار سامعین اور ناظرین درکار ہوتے تھے۔ اس لئے وہ انھیں اس نیند جس کی وجہ وہ خود ہی تھے، سے باہر نکلنا چاہتے تھے۔ وہ ہمیں خود سے دور کر کے اپنی شاعری سے جوڑنا چاہتے تھے، سمجھ دار بنانا چاہتے تھے۔ 

ایک اور بات جو انھیں بہت اہم بناتی ہے ، وہ ہے،

جو طور ہے دنیا کا اسی طور سے بولو 

بہروں کا علاقہ ہے ذرا زور سے بولو

ان کی تکلم کا انداز کم وبیش یہی تو جتلانا چاہتا تھا۔ راحت بھی الفاظ نگاری اپنے آپ میں منفرد تھی۔ وہ تمام معروف الفاظ کو نیے روپ میں ڈھالنے میں ماہر تھے۔ اس شعر کو ہی لے لیجئے،

اپنے حاکم کی فقیری پہ ترس آتا ہے 

جو غریبوں سے پسینے کی کمائی مانگے۔

یا پھر اس شعر کو دیکھیں،

اس کی یاد آئی ہے سانسوں ذرا آھستہ چلو 

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے۔

راحت بھائی نے اپنی دھڑکنیں روک لیں لیکن وہ ہم سے عبادت جاری رکھنے کی امید رکھ گئے ہیں۔ ایک تخلیقی شخصیت لافانیت کا معیار طے کرنا بے حد مشکل کام ہے لیکن ان کی تحریروں کی صاف بیانی عظیم کہانی نگار پریم چند کی یاد دلاتی ہے۔ کتنا مشکل ہوتا ہے آسان ہونا، آسان لکھنا اور ایسا مسلسل لکھتے رہنا۔ ایسا غالباً اسی وقت ممکن ہے جب آپ جان لیں کہ،

دوستی جب کسی سے بھی کی جائے 

دشمنوں کی بھی راۓ لی جائے

وہ کسی کو اپنا بناتے بناتے اپنے متضاد کو نظرانداز نہیں کرتے۔اس شعر  کو دیکھیں،

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشے سے کوئی کام نکل آتا ہے۔

اپنے آپ کو کسی تباہی سے روک لینے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ان کا کامیاب ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تین زندہ پیڑھیوں کے پسندیدہ شاعر ہیں۔وہ بہت شدت سے کہتے ہے،

یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا 

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا 

لیکن فراقؔ صاحب کہتے ہیں،

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی 

بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی 

راحت بھائی کی سانسوں سے ہمارا ساتھ بھلے ہی چار دن کا رہا ہو لیکن ان کی روح یعنی شاعری سے تو ابد تک ساتھ قائم رہے گا۔

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...