نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

دسمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...

برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کی عمومی تاریخ کا منفرد جائزہ

 پروفیسر محمد سجاد برطانوی عہد کے ہندوستانی مسلمانوں کے تاریخی مطالعے کے حوالے سے یوں تو ولفریڈ کینٹویل اسمتھ Wilfred Cantwell Smith (1916-2000) کی تصنیف، ماڈرن اسلام ان انڈیا: اے سوشل اینالیسیس- Modern Islam in India: A Social Analysis (1943)، کو اولین اور بنیادی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ جواہر لعل  نہرو نے اپنی کتاب، ڈسکوری آف انڈیا- Discovery of India (1946) میں اس کا ذکر یوں کیا ہے کہ ان کو ملال تھا کہ وہ اسمتھ کی اس اہم کتاب سے استفادہ حاصل نہیں کر پائے تھے۔

اے ایم یو کی طلبا سیاست: 1965 تا 1981

از:  لارنس گوتئیر ترجمہ و تلخیص: پروفیسر محمد سجاد، شعبہ تاریخ، علیگرھ مسلم یونیورسٹی۔ (اول) لارنس گوتئیر Laurence Gautier ایک فرانسیسی اسکالر ہیں۔ انہوں نے 2016 میں کیمبرج یونیورسٹی سے بھارت کی “مسلم” یونیورسٹیوں کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ اب جندل یونیورسٹی، سونی پت، ہریانہ میں تدریسی و تحقیقی کام انجام دے رہی ہیں۔ سنہ 2019 میں انہوں نے ایک طویل تحقیقی مضمون شائع کیا ہے جو اے ایم یو کی 1965 کے بعد کی اسٹوڈنٹ تحریکوں پر مرکوز ہے۔ یوں تو سینئر فرانسیسی  محقق وائیلیٹ گراف نے بھی اس موضوع پر بہت طویل مضمون ای پی ڈبلیو کے 11 اگست 1990  کے شمارے میں شائع کیا تھا لیکن اس طویل مضمون کا حوالہ گوتیئر نے نہیں دیا ہے۔  بہر کیف، یہاں گوتیئر کے 21  صفحات پر مشتمل، اس مضمون (2019) کی تلخیص اردو میں پیش کی جاتی ہے: