نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔ 

بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔ 

یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہے اگر آپ ایسی باتوں کو اہم سمجھ کر ان کی فکر میں گھلتے  رہے تو وقت آپ کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا۔ پیرس جو فیشن کے لئے سند ہے وہاں مہذب لوگ شانزلیڑے کے فٹ پاتھی ریستورانوں میں کیا مزے اور بے فکری سے کھاتے پیتے ہیں۔۔۔۔

۔۔۔۔مغرب ہم سے زیادہ صحت مند، ہم سے زیادہ صفائی پسند، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم سے زیادہ حق پسند ہے۔ وہ زیادہ علم دوست، زیادہ انسان دوست بلکہ حد سے زیادہ حیوان دوست ہے۔ ہر شعبہء زندگی میں وہاں کے لوگ محنت کرتے ہیں۔ اور سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ جب ان سے بہتر سوچ اور زیادہ محنت کرنے والے پیدا ہوں گے تو مغرب خاموشی سے اس ریلے ریس کی ڈنڈی انہیں پکڑا دے گا اور خود تاریخ کا حوالہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن اس وقت کے آنے تک آپ کو مغرب سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا، بلکہ چھیننا ہوگا۔ 

برا نہ منائیں اور غلط نہ سمجھیں تو یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ مجھے کالی اچکنوں میں ملبوس علی گڑھ کے طلبا مستقبل کے معمار لگنے کے بجائے تاریخ کے گذرے ہوئے دور کا چلتا پھرتا حوالہ نظر آتے ہیں۔ چوغے، جبے، فرغل، اور انگرکھے سے اچکن تک کا سفر آپ نے سو برس میں کیا ہے۔ اچکن میں آپ نہ امن کے دنوں میں ورزش کے دوران سر کے بل کھڑے ہو سکتے ہیں، نہ جنگ کے میدان میں سر دھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں۔ یہ نہ کارخانہ کے مزدور کا لباس ہے، نہ کھیت میں کام کرنے والے کسان کے لئے کار آمد۔ آپ اس لباس میں دوڑ کر بس بھی نہیں پکڑ سکتے، زمانہ کو کیسے پکڑیں گے۔ 

۔۔۔۔ وہی گرم جلیبی والی بات ہے۔ اچکن بھی ایک دن ہار جائے گی۔ وقت کیوں ضائع کرتے ہو، اچکن کے بٹن کھولو، تمہاری شرح صدر کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ خفا ہو کر کسی نے کہا، اچکن کی مٹی پلید کر چکے، اب کچھ ترکی ٹوپی کے بارے میں بھی ارشاد ہو۔ فضل الرحمان کہنے لگے، یہ ترکی ٹوپی جس کا استعمال ترکی میں قانوناً ممنوع ہے، آپ لوگ ہر وقت سر پر کیوں دھرے رہتے ہیں۔ ذرا تیز چلنا چاہیں تو اس کی وجہ سے چل نہ سکیں۔ ذرا ہوا چلے تو پھندنا بکھر جائے، باد مخالف چلے تو ٹوپی اڑ جائے۔ ۔۔۔یہ ترکی ٹوپی تو اچکن سے بہت پہلے اتر جائے گی۔ اصل شے ٹوپی نہیں، اس سے ڈھکا ہوا سر ہے، جس میں فرد اور قوم کی ترقی کے لئے علم اور سیاحت کا سودا ہونا چاہئے۔ 

مختار مسعود (1926-2017)، سفر نصیب (1980) 

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

جوزف ہورووٹز: محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد

محمد سجاد جوزف ہورووٹز (Josef Horovitz 1874-1931) علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلق سے جو لا تعداد کتابیں لکھی گئ ہیں ان میں ان کے بارے میں بہت کم جانکاریاں مل پاتی ہیں۔  یہودی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اس جرمن محقق و مدرس نے اسلامیات کی تحقیق و تدریس کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دئے۔ اور اس طرح ادبی و ثقافتی مطالعات میں اہم اضافے کئے۔  جوزف کے والد مارکس (Marcus) ہورووٹز بھی تاریخ داں تھے، اور ہنگری سے تعلق رکھتے تھے۔ جوزف ہورووٹز نے فرینک فرٹ، مار برگ، اور برلن یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مصر، شام، اور فلسطین کا سفر بھی کیا تھا۔ سنہ 1907ء میں ان کی تقرری بھارت (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) میں ہوئ تھی۔ علی گڑھ میں استاد کے علاوہ برطانوی ہند حکومت کے لئے فارسی و عربی ایپی گرافیسٹ کا کام بھی انجام دینا تھا۔  ان کا تعلق قاہرہ کے عربی دانشور رشید رضا (مدیر، المنار) ، شبلی نعمانی، حمیدالدین  فراہی، سے بھی تھا۔ عبدالستار خیری، عبدالجبار خیری، عبدالحق (عثمانیہ ...