۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔
بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔
یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہے اگر آپ ایسی باتوں کو اہم سمجھ کر ان کی فکر میں گھلتے رہے تو وقت آپ کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا۔ پیرس جو فیشن کے لئے سند ہے وہاں مہذب لوگ شانزلیڑے کے فٹ پاتھی ریستورانوں میں کیا مزے اور بے فکری سے کھاتے پیتے ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔مغرب ہم سے زیادہ صحت مند، ہم سے زیادہ صفائی پسند، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم سے زیادہ حق پسند ہے۔ وہ زیادہ علم دوست، زیادہ انسان دوست بلکہ حد سے زیادہ حیوان دوست ہے۔ ہر شعبہء زندگی میں وہاں کے لوگ محنت کرتے ہیں۔ اور سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ جب ان سے بہتر سوچ اور زیادہ محنت کرنے والے پیدا ہوں گے تو مغرب خاموشی سے اس ریلے ریس کی ڈنڈی انہیں پکڑا دے گا اور خود تاریخ کا حوالہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن اس وقت کے آنے تک آپ کو مغرب سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا، بلکہ چھیننا ہوگا۔
برا نہ منائیں اور غلط نہ سمجھیں تو یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ مجھے کالی اچکنوں میں ملبوس علی گڑھ کے طلبا مستقبل کے معمار لگنے کے بجائے تاریخ کے گذرے ہوئے دور کا چلتا پھرتا حوالہ نظر آتے ہیں۔ چوغے، جبے، فرغل، اور انگرکھے سے اچکن تک کا سفر آپ نے سو برس میں کیا ہے۔ اچکن میں آپ نہ امن کے دنوں میں ورزش کے دوران سر کے بل کھڑے ہو سکتے ہیں، نہ جنگ کے میدان میں سر دھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں۔ یہ نہ کارخانہ کے مزدور کا لباس ہے، نہ کھیت میں کام کرنے والے کسان کے لئے کار آمد۔ آپ اس لباس میں دوڑ کر بس بھی نہیں پکڑ سکتے، زمانہ کو کیسے پکڑیں گے۔
۔۔۔۔ وہی گرم جلیبی والی بات ہے۔ اچکن بھی ایک دن ہار جائے گی۔ وقت کیوں ضائع کرتے ہو، اچکن کے بٹن کھولو، تمہاری شرح صدر کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ خفا ہو کر کسی نے کہا، اچکن کی مٹی پلید کر چکے، اب کچھ ترکی ٹوپی کے بارے میں بھی ارشاد ہو۔ فضل الرحمان کہنے لگے، یہ ترکی ٹوپی جس کا استعمال ترکی میں قانوناً ممنوع ہے، آپ لوگ ہر وقت سر پر کیوں دھرے رہتے ہیں۔ ذرا تیز چلنا چاہیں تو اس کی وجہ سے چل نہ سکیں۔ ذرا ہوا چلے تو پھندنا بکھر جائے، باد مخالف چلے تو ٹوپی اڑ جائے۔ ۔۔۔یہ ترکی ٹوپی تو اچکن سے بہت پہلے اتر جائے گی۔ اصل شے ٹوپی نہیں، اس سے ڈھکا ہوا سر ہے، جس میں فرد اور قوم کی ترقی کے لئے علم اور سیاحت کا سودا ہونا چاہئے۔