نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کی عمومی تاریخ کا منفرد جائزہ

 پروفیسر محمد سجاد

برطانوی عہد کے ہندوستانی مسلمانوں کے تاریخی مطالعے کے حوالے سے یوں تو ولفریڈ کینٹویل اسمتھ Wilfred Cantwell Smith (1916-2000) کی تصنیف، ماڈرن اسلام ان انڈیا: اے سوشل اینالیسیس- Modern Islam in India: A Social Analysis (1943)، کو اولین اور بنیادی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ جواہر لعل  نہرو نے اپنی کتاب، ڈسکوری آف انڈیا- Discovery of India (1946) میں اس کا ذکر یوں کیا ہے کہ ان کو ملال تھا کہ وہ اسمتھ کی اس اہم کتاب سے استفادہ حاصل نہیں کر پائے تھے۔

لیکن بہ حیثیت مجموعی چند اہم ترین تحقیقی کتابوں میں ایک ہے انیل سیل(Anil Seal) کی کتاب (1968)، ایمرجنس آف انڈین نیشنلزم: کمپیٹیشن اینڈ کولیبوریشن ان لیٹ 19تھ سنچری۔(Emergence of Indian Nationalism: Competition and Collaboration in Late 19th Century) 

اس اہم کتاب کے آخری باب بہ عنوان، Muslim Breakaway میں مسلم سیاست کے علیحدگی پسند رویے کی توضیح ایک مخصوص نقطہ نظر سے کی گئ ہے۔ 

لیکن تاریخ داں پیٹر ہارڈی (پ 1922) کی کتاب، مسلمس آف برٹش انڈیا- Muslims of British India (1972) ایک ایسی اہم تصنیف ہے جس کے گہرے مطالعے کے بغیر اس موضوع پر کوئ بھی رائے اور موقف نا مکمل ہی رہے گا۔ تاریخ کو ماضی و حال کے درمیان لامتناہی مکالمہ کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے موجودہ عہد کی باریک تفہیم کے لئے اس کتاب کا پھر سے مطالعہ کیا جانا چاہئے۔ اہل قلم خواتین و حضرات کو تو خاص طور پر اس کتاب کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔ 

گوپال کرشن نے ہارڈی کی دونوں کتابوں کا تبصرہ بہت عمدہ کیا تھا۔ اردو قارئین کے استفادہ کے لئے اس تبصرے کا کچھ حصہ یہاں شئیر کرنا موزوں ہوگا۔ 

ولیم ہنٹر (1840-1900) نے اپنی رپورٹ (1871) میں کچھ sweeping generalization کی تھی۔ مثلاً، "غدر کے بعد تمام مسلمانوں پر انگریزوں کے مظالم ہوئے"؛ "تمام مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی تھی"؛ "بنگال میں انگریزوں کی پالیسی کے تحت، مسلمانوں کی قیمت پر ہندوؤں کو فائدہ پہنچایا گیا"؛ "مسلمانوں کو ایڈمینیسٹریشن میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئ"؛ وغیرہ۔ ایسی عامیانہ باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم نیشنلزم اور علیحدگی پسند سیاست کو منظم کروایا گیا۔ 

اس پر سوال اٹھایا جانا لازمی تھا۔ ہارڈی نے اس اہم کام کو انجام دیا۔ ہارڈی نے اسے یوں پیش کیا: " برطانوی حکومت کا نتیجہ یہ ہوا کہ، شمالی ہند کے مسلم خواص کی طرز زندگی پر اثرات مرتب ہوئے، نہ کہ ان کی livelihood یعنی روزی روٹی ہی کمزور ہو گئ"۔ "سب جج اور ڈپٹی کلکٹر جیسے عہدوں پر تو بنگال میں 19ویں صدی کے نصف تک اور اتر پردیش میں اس کے ایک نسل بعد تک مسلمانوں ہی کا غلبہ قائم رہا"۔ "غدر کے بعد مسلمانوں ہی کی جائیدادیں ضبط ہوئیں یا کہ ہندوؤں کی بھی، اس بات پر متعصب رائیں تو ہیں، لیکن وہ حقائق پر مبنی جانکاری کا حصہ نہیں کہی جا سکتیں"۔ ہارڈی نے ایجوکیشن کمیشن 1882 اور دیگر ضلع وار حوالوں سے یہ انکشاف کیا کہ زمینوں کی ملکیت میں یہ تبدیلی آئی کہ مغل انتظامیہ سے  منسلک مسلمانوں کی زمینیں اب ان مسلمانوں کے ہاتھوں میں جانے لگیں جن کا مستقبل اب برطانوی انتظامیہ سے منسلک ہونے لگا تھا۔ ہارڈی نے یہ بھی لکھا ہے کہ چند صوبوں کے مخصوص علاقوں کے مسلمانوں کی تعلیمی و اقتصادی پسماندگی کو سامنے رکھ کر، پورے ملک کے مسلم خواص کو مراعات فراہم کئے جا رہے تھے۔ انگریز حکمراں اعداد و شمار کےاس کھیل کو جانتے ہوئے بھی، قصداً یہ رعایتیں، عنایتیں اور کرم فرمائی کر رہے تھے، تاکہ ان کو ایک مخصوص سیاسی جماعت بنا کر مخصوص طریقے سے استعمال کیا جاسکے۔ بنگال کے ایجوکیشن اور ایڈمینیسٹریشن  میں مسلمانوں کا under representation تھا، لیکن اس نام پر مراعات کا فائدہ، پنجاب اور اتر پردیش کے مسلم خواص کو پہنچایا جا رہا تھا۔ ہارڈی نے یہ بھی منکشف کیا ہے کہ 19ویں صدی کی آخری دہائیوں میں جب برطانیہ میں مذہبی شناخت پر مبنی سیاست کو کمزور کیا جا رہا تھا، انہی دہائیوں میں بھارت کی برطانوی حکومت فرقہ پرستانہ سیاست کی آگ کو بھڑکاتے ہوئے، اس میں گھی بھی مسلسل ڈال رہی تھی۔ 1870 اور 1880 کی دہائیوں میں اور اس کے بعد انگریزی حکومت نے اس کام کو بڑے پیمانے پر انجام دیا۔ مسلم خواص کی لیڈرشپ کے لئے مسلم عوامی حمایت کا انتظام خود برطانوی حکومت کر رہی تھی۔ بعد کی دہائیوں میں انڈین نیشنلزم کو کمزور کرنے کے لئے مسلم خواص کا استعمال برطانوی حکومت نے خوب خوب کیا۔   

اس اہم کتاب کا آخری پیراگراف بہت ہی گنجلک اور پیچیدہ نثر میں ہے۔ 

جناب نوید مسعود صاحب کی مدد سے اس مخصوص عبارت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جو کچھ اس طرح ہے:

تقسیم ہند اور تقسیم کی پوری سیاسی جدو جہد بھی مسلمانوں کے لئے جدید نیشن اسٹیٹ Nation State اور مذہب کے درمیان کوئی مطابقت پیدا نہیں کر سکی۔ ہندوستانی مسلمان ہنوز اسی تذبذب کے شکار ہیں کہ کیا وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے کسی سیکولر ریاست کے وفادار شہری بنے رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کو وقت کے ساتھ یہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی کہ اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے کثیرالمذاہب معاشرے میں جینے کا ڈھنگ کیا ہونا چاہئے۔ آزادی کے 25 برس بعد تک یہ لائحہ عمل تیار نہیں ہو پایا تھا۔ پیٹر ہارڈی نے یہ بھی لکھا کہ اس clarity تک پہنچنے میں ہندوستانی مسلمانوں کو کافی وقت لگے گا۔ ایسا لکھنے سے قبل 1971 میں انہوں نے 64 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ، پارٹنرس ان فریڈم- Partners in Freedom، بھی لکھا تھا۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا مدنی کے تصور قومیت پر وضاحت کی تھی۔ ان مفکرین نے مسلم نیشنلزم کے بجائے، انڈین نیشنلزم کی بات کی تھی۔ یعنی پیٹر ہارڈی کی دونوں کتابوں کا مطالعہ ایک ساتھ کرنے سے ایک واضح اشارہ مل جاتا ہے۔  

ہارڈی کی اس کتاب سے اتفاق و اختلاف کی طویل گنجائش ہے۔ اس پر از سر نو بحث ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر اہل اردو بھی ایسے مباحث میں شریک رہنا چاہتے ہیں۔ یہی عرض ہے کہ اسمتھ، سیل، لیلیویلڈ، ہارڈی، رابنسن، براس، دھولی پالا، ولیم گولڈ وغیرہ، کی کتابوں پر ایک اجمالی جائزہ، ایک طویل review essay کی شکل میں، لیا جانا چاہئے۔

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

جوزف ہورووٹز: محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد

محمد سجاد جوزف ہورووٹز (Josef Horovitz 1874-1931) علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلق سے جو لا تعداد کتابیں لکھی گئ ہیں ان میں ان کے بارے میں بہت کم جانکاریاں مل پاتی ہیں۔  یہودی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اس جرمن محقق و مدرس نے اسلامیات کی تحقیق و تدریس کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دئے۔ اور اس طرح ادبی و ثقافتی مطالعات میں اہم اضافے کئے۔  جوزف کے والد مارکس (Marcus) ہورووٹز بھی تاریخ داں تھے، اور ہنگری سے تعلق رکھتے تھے۔ جوزف ہورووٹز نے فرینک فرٹ، مار برگ، اور برلن یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مصر، شام، اور فلسطین کا سفر بھی کیا تھا۔ سنہ 1907ء میں ان کی تقرری بھارت (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) میں ہوئ تھی۔ علی گڑھ میں استاد کے علاوہ برطانوی ہند حکومت کے لئے فارسی و عربی ایپی گرافیسٹ کا کام بھی انجام دینا تھا۔  ان کا تعلق قاہرہ کے عربی دانشور رشید رضا (مدیر، المنار) ، شبلی نعمانی، حمیدالدین  فراہی، سے بھی تھا۔ عبدالستار خیری، عبدالجبار خیری، عبدالحق (عثمانیہ ...