نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اے ایم یو کی طلبا سیاست: 1965 تا 1981


از: لارنس گوتئیر

ترجمہ و تلخیص: پروفیسر محمد سجاد، شعبہ تاریخ، علیگرھ مسلم یونیورسٹی۔

(اول)

لارنس گوتئیر Laurence Gautier ایک فرانسیسی اسکالر ہیں۔ انہوں نے 2016 میں کیمبرج یونیورسٹی سے بھارت کی “مسلم” یونیورسٹیوں کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ اب جندل یونیورسٹی، سونی پت، ہریانہ میں تدریسی و تحقیقی کام انجام دے رہی ہیں۔ سنہ 2019 میں انہوں نے ایک طویل تحقیقی مضمون شائع کیا ہے جو اے ایم یو کی 1965 کے بعد کی اسٹوڈنٹ تحریکوں پر مرکوز ہے۔ یوں تو سینئر فرانسیسی  محقق وائیلیٹ گراف نے بھی اس موضوع پر بہت طویل مضمون ای پی ڈبلیو کے 11 اگست 1990  کے شمارے میں شائع کیا تھا لیکن اس طویل مضمون کا حوالہ گوتیئر نے نہیں دیا ہے۔ 

بہر کیف، یہاں گوتیئر کے 21  صفحات پر مشتمل، اس مضمون (2019) کی تلخیص اردو میں پیش کی جاتی ہے: 

بعض تاریخی وجوہات کی بنا پر مسلم یونیورسٹی اشرافیہ مسلم تہذیب اور مسلمانوں کے سیاسی و سماجی رتبہ کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ، بہ حیثیت مجموعی، یہ شمالی ہند تک ہی محدود ہے۔ دوسری جانب ہندو اکثریت پرست طاقتیں ہیں جو اس یونیورسٹی کو تقسیم ہند کے میموریل کے طور پر دیکھتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ 1940ء کی دہائ میں یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا کی بڑی تعداد نے مسلم لیگ کی حمایت کی تھی۔ 

یہ یونیورسٹی بہ یک وقت سنٹرل یونیورسٹی بھی ہے اور  مسلم کمیونیٹی کے مفاد کے تحفظ اور اس کی سیاسی نمائندگی کا سمبل (symbol) بھی تصور کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ  دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلے خاص اہمیت کی حامل ہے۔

دیگر کئ دانشوروں کے برعکس، گوتیئر، 1965 سے 1981 کے درمیان یونیورسٹی کی اس سیاست کو یوں دیکھتی ہیں کہ یہ نہرو کے بعد کی ان سیاسی تبدیلیوں کی غمازی کرتی ہے جس کے تحت مختلف جاتیاں (ذات) سیاسیات و اقتدار میں حصہ داری مانگ رہی تھیں، کانگریسی حکومت کی مخالفت کر رہی تھیں۔ یعنی “نہروویئن کانسینس” (Nehruvian Consensus)ایک بحران کا شکار ہو رہی تھی۔ 

(اس کے نتیجے کے طور پر ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ اور ایمرجنسی کی مخالفت کے دوران ہی  بھگوا طاقتوں کا عروج ہوا۔ )

اس مضمون کا بنیادی سروکار یہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی کی ان تحریکوں نے آزاد بھارت کی مسلم سیاست کی تعریف و توضیح از سر نو کی اور اقلیتی حقوق کی سیاست کو جمہوری سیاست کا جزو لاینفک بنایا، جو کہ تقسیم ہند کے بعد ایک شجر ممنوعہ بنا دیا جا چکا تھا۔ ان تحریکوں کے معرفت ہی مسلمانوں نے بھی مختلف گروپس، جماعتوں، اور تنظیموں کے ساتھ سیاسی اتحاد (الائنس) قائم کرنے کا ہنر سیکھا اور سیکولر سیاست پر کانگریس کی مونوپولی اور اس کے غلبہ کو چیلنج کیا۔ 

اب پہلا اہم سوال یہ ہے کہ ایک یونیورسٹی میں انٹرنل اسٹوڈنٹس کے داخلے کی پالیسی کا تنازعہ کن طریقوں سے ملک گیر مسلم اقلیتی سیاست میں تبدیل کر دیا گیا؟

پنڈت نہرو، مولانا آزاد، اور ذاکر حسین، نے مل کر آزادی کے بعد، اس ادارے کو نیشنل ادارہ بنا کر مسلمانوں کے درمیان ہندوستانی جمہوریت میں بھروسہ اور اعتبار بنائے رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ تاکہ مسلمان خود کو ایک مساوی حقوق و اختیارات والے شہری سمجھیں۔ یعنی تقسیم کے احساس جرم سے آزاد کرنے کی کوشش کی گئ۔ حکومت کی اس پالیسی کا لبرل، سیکولر، اور لیفٹ والوں نے خیر مقدم کیا۔ یونیورسٹی میں کثیر المزاہب رواداری اور روشن خیالی کو توانائ فراہم کرنے کی کوشش کی گئ۔ 

حالانکہ، اتر پردیش کی صوبائ حکومت کا رویہ اردو اور پرسنل لا کو لے کر کچھ ایسا تھا جس نے مسلمانوں کو مشکوک کر رکھا تھا۔ 1961 میں پہلی بارایک ہندو اور ایک مسلم اسٹوڈنٹ کے بیچ کا جھگڑا ہندو مسلم فساد میں تبدیل ہو گیا۔ (فروری 1961 میں جبل پور، مدھیہ پردیش، میں ایک فساد ہو چکا تھا۔ اور مارچ 1964ء میں کلکتہ، جمشید پور، اور راؤڑ کیلا، میں بھی فسادات ہو چکے تھے)۔

اس میں اتر پردیش کی صوبائ حکومت نے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دیا اور جن سنگھ و آر ایس ایس کے رول پر پردہ ڈال دیا۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں حکومت کے تئیں بے اعتباری اور بے اعتمادی آنے لگی۔ اس کے رد عمل کے طور پر 1962 کے انتخابات میں علی گڑھ میں مسلمانوں نے کانگریس کے خلاف ایک نئی دلت جماعت، ریپبلکن پارٹی آف انڈیا، کو ووٹ دیا۔ اس جماعت کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر، بدھ پر یہ موریہ سے تھا اور اس میں اے ایم یو کے پراکٹر، عبدالبشیر خاں، اور میڈیسن کے پروفیسر، آر خواجہ، نے بھی اس الائنس کے بننے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ حالانکہ یہ "دلت۔مسلم سیاسی اتحاد" بہت عارضی ثابت ہوا۔ لیکن یہ ظاہر کر دیا گیا کہ مسلم ووٹ پر کانگریس کی اجارہ داری نہیں تھی، علی گڑھ ضلع میں کانگریس کا زوال شروع ہو گیا، اور غیرکانگریسی سیاست کے امکانات ابھرنے لگے۔ 

یعنی، مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی سیاست اس وقت ابھری جب علی گڑھ کے مسلمان کانگریس سے بیزار ہونے لگے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب عمومی طور سے ملک گیر سطح پر تعلیم یافتہ بے روزگار طبقہ سرکار سے ناراض ہو رہا تھا۔ اس کا ملک گیر آنکڑہ، سپرو کمیٹی رپورٹ (1944) اور کوٹھاری کمیشن رپورٹ (1966) نے پیش کر دیا تھا۔ 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب بے روزگار تعلیم یافتہ طبقہ ملک گیر سطح پر عمومی طور پر نالاں تھا، تب اے ایم یو کے طلبا کی بے روزگاری یا نوکریوں میں کم نمائندگی کا مسئلہ، مسلم مخالف امتیازات کے مسئلہ میں کس طرح تبدیل کر دیا گیا؟ 

اس سلسلے میں اے ایم یو کے وائس چانسلر، بد رالدین طیب جی نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ، مسلم مخالف امتیازات کی وجہ سے ہی سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہو گئی ہے۔ طیب جی نے یہ تجویز رکھ دی کہ انٹرنل اسٹوڈنٹس کے لئے اب 50 فی صد کے بجائے 75  فی صد سیٹیں ریزرو ہونی چاہیئیں۔ 

طیب جی کے جاں نشیں وائس چانسلر، علی یاور جنگ نے جب واپس اس ریزرویشن کو 50 فی صد پر لانا چاہا تو وبال مچ گیا۔ 

یوں تو بھارت کی یونی ورسیٹیوں میں اسٹوڈنٹس کی پر تشدد تحریکیں عام بات تھیں جس کی تائید ہمایوں کبیر کی 1955ء کی رپورٹ اور یو جی سی کی 1960 کی رپورٹ بھی کرتی ہیں، لیکن اے ایم یو اسٹوڈنٹس کی اپریل 1965 کے اس ایجیٹیشن(agitation) کو آں وقتی وزیر تعلیم، محمد علی کریم چھاگلہ نے ایک متنازعہ نظریاتی رخ دے کر اشتعال پھیلا دیا۔ چھاگلا نے یہ کہہ دیا کہ طلبا کا یہ ایجیٹیشن بنیادی اور حقیقی طور پر فرقہ پرست مسلم طلبا کا ایجیٹیشن تھا جو اے ایم یو کو سیکولر بنانے کے خلاف ایک مہم ہے۔ 

اس پر یونیورسٹی میں تعطیلات کا اعلان کر کے ایک مخصوص سرکاری آرڈینینس کے ذریعہ یونیورسٹی پر حکومت کا کنٹرول بڑھا دینے کی تجویز کر دی گئ۔ اس میں کئ اساتذہ و طلبا کی گرفتاریاں ہوئیں۔ اس سے معاملہ مزید بھڑک گیا۔ 

اساتذہ و طلبا کی حمایت میں پرو وائس چانسلر یوسف حسین خاں نے یونیورسٹی کو اسلامی تہذیب و روایات فروغ دینے کا آلہ کار بتایا، جب کہ وائس چانسلر یاور جنگ نے یہ اپیل کی کہ یونیورسٹی کو مسلم فرقہ پرستی کا مرکز بننے سے بچایا جائے۔ 

اور اس طرح طلبا کے داخلے کے کوٹہ کا سوال مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے سوال میں بدل گیا۔ اور کیمپس کے اندر اقلیتی کردار کی مخالفت والے مسلم مخالف روشن خیال قرار دیئے جانے لگے، جب کہ اقلیتی کردار کے حامی، مسلم قوم کے ہمدرد قرار دیئے جانے لگے۔ 

اس تحریک میں مختلف ملک گیر مسلم تنظیموں اور جماعتوں کی شمولیت (اور وہ بھی، لکھنؤ کنونشن میں، اگست 1965ء میں، مسلم مجلس مشاورت ، کی بنیاد کے ایک برس کے اندر ہی) نے اس مسئلے کو مسلمانوں کا ملک گیر مسئلہ بنا دیا۔ ان تنظیموں نے مسلم یونیورسٹی پر اپنا دبدبہ اور کنٹرول قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

اس طرح اے ایم یو کی سیاست نے مسلم سیاست کو اقلیتی حقوق کی جمہوری لڑائ کے طور پر کئی دیگر سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں سے نہ صرف اتحاد قائم کیا، بلکہ اسٹوڈنٹ پالیٹکس کو اس کا ذریعہ یا آلہ کار بنایا۔ اب مسلم طلبا کیمپس کے حدود سے باہر ملک گیر سیاست  کے اہم حصہ بن گئے۔ ملک کے مسلمانوں کے حقوق و اختیارات کی لڑائ لڑنا اپنی ذمہ داری سمجھنے لگے۔ بلکہ ایک سابق صدر، طلبا یونین، ڈاکٹر امیر علی نے تو یہ تک کہا کہ اے ایم یو کے طلبا اپنے سوچ اور عمل کے لئے پوری دنیا کی ملت کو جوابدہ ہیں۔ (لارنس گو تیئر نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ، سر سید ملک گیر اجتماعیت کی اصطلاح، قوم، کی بات کرتے تھے، اور عالمگیر مسلم اجتماعیت یعنی پان اسلامزم، کی اصطلاح، ملت اور امت، کے سخت مخالف تھے)۔ 

ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے لئے الیکشن میں  یہ طلبا ووٹ مانگنے کی مہم میں لگ گئے تھے، صرف اس لئے کہ وہ نیتا (امیدوار) لوگ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے مطالبے کی حمایت کر رہے تھے۔ اس کی تائید 1973-1974 کے صدر یونین عارف محمد خاں بھی کرتے ہیں کہ طلبا یونین کے صدر کی حمایت اور مہم، اسمبلی اور لوک سبھا الیکشن کے ان امیدواروں کے لئے مسلم ووٹ حاصل کرنے میں معاون تھیں۔ 

اس طرح اسٹوڈنٹ موبیلائزیشن(mobilisation)اور لیڈرشپ کوالیٹی دیکھتے ہوئے جے پرکاش نارائن بھی 1974 کی اپنی تحریک ، سنٹرل کو آرڈینیشن کمیٹی، میں عارف محمد خاں کو شامل کرنا چاہتے تھے۔ حالاں کہ یہ 1980 میں کانگریس کے کانپور لوک سبھا امیدوار بن کر نہ صرف کامیاب ہوئے، بلکہ، مرکزی کابینہ کے وزیر بھی بنے۔ 

علی گڑھ کی اس طلبا تحریک سے ابھرنے والے دوسرے رہنما تھے جاوید حبیب، جو 1978 میں جنتا پارٹی حکومت کے عہد میں طلبا یونین کے صدر تھے، اور بعد تک علی گڑھ اور ملک گیر مسلم سیاست میں سر گرم رہے، گرچہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی سے ان کا تعلق نہ رہا۔ بعد میں یہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن بن گئے۔ 

یعنی، کئ غیر مسلموں کی طرح ایمرجنسی کی مخالفت میں لیڈر بن گئے، اسی طرح اے ایم یو کے مسلم اسٹوڈنٹس بھی کانگریس مخالفت میں اور اسی دوران کے ایجیٹیشن سے لیڈر بن گئے۔ 

حالاں کہ یہ بھی سچ ہے کہ ایمرجنسی سے قبل اے ایم یو اسٹوڈنٹس پالیٹکس 1972-1974 کے دوران، اور بعد میں، یعنی 1977-1981 کے دوارن زیادہ vocal اور assertive تھی۔ 

اسی عمل میں محض موبیلائیزیشن کی صلاحیت کی بنا پر علی گڑھ طلبا نے کیمپس کے حدود سے باہر مسلمان اور حکومت کے درمیان ایک interlocutor کی حیثیت حاصل کر لی۔ مثلاً، اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم و تبدیلی کے لئے مارچ 1973 میں جو کمیٹی بنائ تھی، اس میں بشیر احمد سعید (اے ایم یو یونین کے کابینہ ممبر، اور بعد مدراس ہائ کورٹ کے جج، جو سابق کابینہ ممبر، اے ایم یو طلبا یونین بھی رہے) ، شیخ عبداللہ، وزیر اعلی، کشمیر، اور علی میاں ندوی، جیسی شخصیات شامل ہوئیں۔ 1978 والی کنونشن و کمیٹی میں تو کئی صوبوں کے سر کردہ لیڈر شامل کر لئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ 1970 اور 1980 کی دہائ میں ہی دیگر مسلم پریشر گروپس یا تنظیمیں وجود میں آئیں، مثلاً، پرسنل لا بورڈ اور بابری مسجد کمیٹیاں۔ 

گوتیئر کہتی ہیں کہ الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں کے اسٹرکچر سے باہر مسلمان پریشر گروپ بنانا اور مخصوص ایشوز پر مبنی الائنس بنانے کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ گوتیئر یہ بھی کہتی ہیں کہ ما بعد عہد نہرو، نسوائی تنظیمیں اور تحریکیں بھی سیاسی پارٹیوں سے تجاوز کر کے وجود میں آنے لگیں؛ اور یہ کہ یہ تمام طاقتیں بھارت کی سیاست کو pluralize کر رہی تھیں۔ حالانکہ، ایسی موقعہ پرست الائنس یا اتحاد نظریاتی اعتبار سے کمزور تنظیمی ڈھانچے کے اعتبار سے ڈھیلی ڈھالی اور اندرونی تضاد و کشمکش، شخصی ٹکراؤ کا شکار تھیں۔ اور اسی لئے ایسی سیاست ناگزیر طور پر کئی کمزوریوں کا شکار رہی۔

شاید اسی لئے، ایسی کمزور سیاست کے دو برے نتائج سامنے آئے:

اوّل، بھگوا طاقتیں توانائ حاصل کرنے لگیں اور 1980 کی دہائ سے لے کر اب تک مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں؛ 

دوئم، 1990 ہی کی دہائ میں اقلیتی حقوق کی دفاع و تحفظ کی یہ مخصوص مسلم سیاست یا تو نظر انداز یا چیلینج کی جانے لگی۔ مثلاً، پسماندہ تحریک وجود میں آگئ اور سابق وائس چانسلر سید حامد مذہبی و  ثقافتی نوعیت کے مطالبات کے بجائے، سماجی، اقتصادی و تعلیمی ترقی کے لئے کارواں نکالنے لگے، اور خود اے ایم یو کے اندر فورم فار ڈیموکریٹک رائٹس (FDR) جیسی آرگینائیزیشن تھوڑی مدت کے لئے وجود میں آئی اور مسلم سیاست کے اس پرانے طریق کا اس موقف کے ساتھ تنقیدی جائزہ لینے لگی کہ سیکولر جمہوریت کی سالمیت میں ہی اقلیتی حقوق و اختیارات کی دفاع ممکن ہے۔ 

-----------

پس نوشت:

بہ حیثیت مجموعی، لارنس گوتئیر کے اس مضمون سے، شاید، یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے خواص اس پر عبور رکھتے ہیں کہ وہ جب چاہیں معمولی، علاقائی مسئلے کو بھی بڑا، غیر معمولی، اور ملک گیر بنا کر جذباتیت کے سہارے عوام کو موبیلائز کر کے حکومت پر دباؤ بنا کر اپنے مخصوص طبقہ کے لئے حکومت سے رعایتیں حاصل کر لینے کے بعد عوام کو ان کی حالتِ زار پر چھوڑ سکتے ہیں؟

کیا کچھ ایسا ہی بابری مسجد کی تحریک کے ساتھ بھی ہوا تھا؟ (میری محدود جانکاری اور سمجھ سے 1986 سے قبل وہ ملک گیر مسئلہ نہیں تھا)۔

کیا کالموں کے ذریعہ مدحتِ سرسنگھ چالک بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے؟


(دوم)

لارنس گوتیئر Laurence Gautier کا ایک اور مختصر تحقیقی مضمون ہے۔ اس کا موضوع ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر تقسیم ہند کے فوری اثرات۔ عنوان ہے، تقسیم ملک کے بعد سرسید کی علی گڑھ یونیورسٹی کا کیا رول ہونا چاہئے، جس کو لے کر ہمیشہ اختلاف رائے رہی ہے۔ 

اس مضمون کا تلخیص و ترجمہ پیش ہے:

یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا کی ایک بڑی تعداد نے 1940ء کے بعد مسلم لیگ کی حمایت کی تھی۔ ان لوگوں نے یہ کبھی غور نہیں کیا کہ جو پاکستان وہ بنانا چاہ رہے تھے اس جغرافیائی علاقے کا حصہ ان کی یونیورسٹی بن بھی پائے گی یا نہیں۔ [ان سے زیادہ دور بین تو امارت شرعیہ کے مولانا سجاد، جمیعت العلماء ہند کے مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، علی گڑھ کے طفیل احمد منگلوری، تھے، جنہوں نے ایسے سوالات زوروں سے اٹھا ئے تھے، بہت تفصیل سے لکھا بھی تھا، لیکن علی گڑھ کے لیگیوں نے ایک نہ سنی]۔

سنہ 1946ء میں یونیورسٹی میں طلبا کی تعداد چار ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔ تقسیم کے بعد یہ تعداد 1948 میں کم ہو کر محض ڈھائ ہزار ہو گئ۔ ان مہاجرین میں وہ لوگ بھی تھے  جو یونیورسٹی کو فنڈ فراہم کرتے تھے۔ اب اس فنڈ کی بھی سخت کمی ہو گئ۔ علاوہ ازیں، علی گڑھ کے غیر مسلم اور اتر پردیش حکومت و انتظامیہ کے بعض لوگ یونیورسٹی کو فرقہ پرست اور علیحدگی پسند مسلمانوں کا اڈہ سمجھتے تھے۔ 

لہذا، یونیورسٹی پر اب سب سے بڑا دباؤ یہ تھا کہ ملک سے مکمل وفاداری کا مظاہرہ کریں اور ایسے  ثبوت پیش کریں۔ "علی گڑھ میگیزن" کے 1948ء والے شمارے کے اداریہ میں  وائس چانسلر اسماعیل خاں کو یہ لکھنا پڑا کہ یونیورسٹی برادری سنجیدگی سے بھارت کو سیکولر جمہوری ملک بنانے میں سبھی طرح کا تعاون کرنا چاہتی ہے۔ 

وزیر اعظم پنڈت نہرو اور وزیر تعلیم مولانا آزاد نے یونیورسٹی کے معرفت مسلمانوں کو بھارت کی سیکولر تصور قومیت کے پروجیکٹ کا حصہ دار (پارٹنر) بنانا  چاہا۔ اسی لئے اس کو سنٹرل یونیورسٹی بنانے کے اقدام کرنے لگے، تاکہ پورا فنڈ مرکزی حکومت فراہم کرے۔ اسی مقصد سے ذاکر حسین کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ (لارنس گوتیئر کو شاید ایسے ثبوت نہیں مل پائے ہیں کہ، آخری ایام میں گاندھی جی کے زیادہ قریبی ذاکر صاحب تھے، مولانا آزاد سے ذاکر صاحب کی تلخی تھی، اور ان دونوں میں بات چیت بھی نہیں تھی)۔ 

بہر کیف، نہرو، آزاد، اور ذاکر، تینوں نے یونیورسٹی کو قومی، یعنی نیشنل یونیورسٹی اور بھارت کی سیکولر تصور قومیت کے خطوط پر لانے کی کوششیں تیزی سے شروع کر دی۔ جنوری 1948ء میں نہرو اور فروری 1949ء میں آزاد ایسے ہی پیغام لے کر علی گڑھ پہنچے۔ آزاد کی تقریر میں واضح ترغیب تھی کہ سر سید کے سیاسی نظریے کو یکسر ترک اور خارج کر دیا جائے۔ آزاد نے صاف لفظوں میں سر سید کی کانگریس مخالفت کی تردید میں تقریر کی۔ 

گوتیئر نے آزاد کی اس تقریر کی متن کی تنقید کی ہے۔ گوتیئر کہتی ہیں کہ آزاد نے یہ کہہ کر یہ میسیج دیا کہ، علی گڑھ میں کانگریس مخالفین اور لیگ کے حامیوں کے علاوہ دوسرے نظریے کے لوگ سرے سے تھے ہی نہیں۔ اس طرح، آزاد نے یونیورسٹی کے اندر کے کانگریس، لیفٹ، لبرل  نظریہ والے لوگوں کی موجودگی سے انکار کر کے انہیں کیمپس میں مزید کمزور کیا۔ آزاد کی اس تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ نہ سر سید کانگریس کی مخالفت کرتے، نہ لیگ وجود میں آتی، اور نہ ملک کا بٹوارہ ہوتا۔ 

ساتھ ہی ساتھ، آزاد نے یہ بھی واضح کیا کہ سر سید کے اندر فرقہ پرستی کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں تھا۔ کسی حد تک  convoluted طریقے سے انہوں نے یہ کہا کہ سرسید کا ہندوؤں کے خلاف کوئ تعصب یا نفرت نہیں تھا، بلکہ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے؛ اور یہ کہ، اس نہج پر سر سید کانگریس سے الگ رہ کر بھی وہ کانگریس سے زیادہ قریب تھے؛ اور لیگ کے دو قومی نظریہ سے بہت دور تھے۔ آزاد نے طلبا و اساتذہ سے کہا کہ وہ سرسید کے تعلیمی و سماجی اصلاحی مشن کو آگے بڑھائیں، ان کے سیاسی نظریے کو سرے سے ترک اور خارج کر دیں۔ آزاد نے علی گڑھ یونیورسٹی اور تعلیم کے معرفت ہندوستان کے سیکولر جمہوریت کو توانا کرنے کا مقصد واضح کیا۔ اور نہرو حکومت پر اعتبار و اعتماد رکھنے کا مشورہ دیا۔ 

ذاکر حسین نے بھی ڈاکٹر راجندر پرساد کو لکھے ایک طویل خط (1950ء) میں واضح کیا کہ، سر سید کے سیاسی نظریہ کے سبھی نشان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا اور ان کے تعلیمی ، تہذیبی و سماجی اصلاحی نظریہ کی احیا و بازیافت کر نا ہی ابھی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ 

ذاکر حسین اور آزاد کے نظریہ میں ایک باریک لیکن نمایاں فرق یہ تھا کہ، آزاد نے سرسید اور انکے رفقا و جاں نشینوں کی سیاسی غلطی کو نمایاں کیا تھا، جب کہ ذاکر حسین نے فرقہ واریت اور بٹوارہ کے لئے انگریزوں کو زیادہ بڑا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ذاکر حسین کے مطابق، علی گڑھ کے مسلم خواص کو موہرے کے طور پر انگریزوں نے استعمال کیا، تاکہ آزادی کی قومی جدو جہد کمزور کر دی جائے۔ اور اس طرح ذاکر حسین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ 1940ء سے 1947ء تک کی علیحدگی پسند سیاست ایک عارضی روش تھی، جو انگریزی حکومت کے اکسانے پر چل رہی تھی اور ان کے جانے سے وہ روش فوت ہوگئ، اور یہ کہ اب آزاد ملک کی یونیورسٹی میں ایسی تقسیم کاری اور منافرت والی سیاست کی کوئ گنجائش نہیں ہوگی۔ 

اس طرح مولانا آزاد اور ذاکر حسین کے اپروچ(approach) میں جو باریک اختلاف تھا، وہ یونیورسٹی کے مسلم کردار کے سوال پر بھی اثر انداز ہو رہاتھا۔ دونوں اپروچ میں یونیورسٹی کے مسلم کردار پر زور ڈالنا مشکل ہو رہا تھا۔ لہذا ذاکر حسین اور آزاد کے درمیان جو فرق تھا، اس سوال کو لے کر، اس پر نہرو بھی کنفیوز ہو رہے تھے ۔ کئی موقعوں پر یونیورسٹی کے نام سے لفظ، مسلم حذف کرنے پر بھی آزاد اور نہرو غور کر رہے تھے۔ 

ان کے برعکس، ذاکر صاحب بالکل صاف گوئی سے یہ کہہ رہے تھے کہ یونیورسٹی میں لفظ، مسلم، برقرار رکھنا  اس اعتبار سے زیادہ معاون ہوگا کہ اس سے حکومت پر مسلمانوں کا اعتماد مضبوط ہوگا۔ اور ذاکر صاحب نے یہ assert کیا کہ مسلم کردار کی وجہ سے یونیورسٹی کے لوگوں کو ملک کے سیکولر پروجیکٹ سے جوڑنا آسان ہوگا۔ 

بہ حیثیت مجموعی، باریک آپسی اختلاف رائے سے قطع نظر، نہرو، آزاد اور ذاکر، تینوں نے علی گڑھ کی سیاسی وراثت اور مسلم کردار کے سوال کو سلجھاتے ہوئے یونیورسٹی کو ما بعد تقسیم ملک، نیشنل انٹیگریشن کا سمبل اور آلہ کار بنانے کا کام کیا۔ ذاکر صاحب نے راجندر پرساد کو لکھے مذکورہ خط میں یہ بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا انتظام چلانا ملک کے اہم ترین اور پیچیدہ ترین مسئلے پر کام کرنے جیسا ہے۔ یہ خط انہوں نے یونیورسٹی کی گرانٹ میں اضافہ کے لئے لکھا تھا۔ 

یونیورسٹی کے بیش تر لوگوں نے اپنے وائس چانسلر کی اس مہم میں تعاون کیا۔ اس طرح ملک کے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ خود کو مساوی حقوق والا شہری سمجھیں۔ لہذا ایک طالب علم، ظفر امام، نے "علی گڑھ میگیزن" (1957-1958) کے اپنے ایک مضمون میں بھی ذاکر صاحب کی تعریف کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ان کی مہم "نئ علی گڑھ تحریک" جیسی کوشش ہے۔ 

ڈی پی مکھرجی، پیارا سنگھ گل (فزکس)، نورالحسن اور غیر مسلم اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کی تقرری یونیورسٹی میں کی گئ۔ پیارا سنگھ نے اپنی آپ بیتی میں اس کا ذکر تفصیل سے کیا ہے کہ، ذاکر صاحب نے صلاحیتوں اور لیاقتوں کو بنیاد بنایا، نہ کہ مذہبی ، جنسی، و  جات پات کی شناخت کو۔ ان کا قصد اے ایم یو کو ورلڈ کلاس ادارہ بنانا تھا۔

البتہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں یہ شبہہ تھا کہ ذاکر صاحب یونیورسٹی کا مسلم کردار ختم کر دیں گے۔ فارسی کے پروفیسر حمید الدین خاں کچھ ایسے ہی شبہات کے شکار تھے۔ ان میں وہ لوگ زیادہ تھے جو ماضی میں مسلم لیگ کے حامی تھے۔ 

اس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ یونیورسٹی کی تاریخ اور اس کے مشن یا مقاصد کو لے کر اختلاف رائے آئندہ بھی برقرار ہی رہی۔ حکومت اور مسلمانوں کے درمیان کے رشتے و تعلق کی رو سے کیمپس کے باہر بھی یہ اختلاف رائے برقرار رہی۔ 

ایسا کیوں؟

اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اتر پردیش کی کانگریس حکومت اور سمپورنانند، ٹنڈن، وغیرہ، جیسی لیڈرشپ عموماً اکثریت پرستی کی طرف مائل نظر آئی، بالخصوص اردو، کو لے کر۔ 

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...