نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ووٹر آئی ڈی کو آدھار کارڈ سے جوڑنے پر کسے فائدہ ہوگا؟

نوید اشرفی

پارلیمنٹ کے گزشتہ سرمائی اجلاس میں تقریباً 12 نئے بل متعارف کیے گئے جن میں ووٹر آئی ڈی اور آدھار کارڈ کو مربوط کرنے کے لیے بھی ایک بل شامل تھا۔ اس بل کو 20 دسمبر کو لوک سبھا  اور 21 دسمبر کو راجیہ میں منظور کیا گیا۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا اور اس بات پر سخت ناراضگی ظاہر کی کہ حکومت نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے اس بل کو پارلیمنٹ میں متعارف کیا۔ اپوزیشن نے یہ الزام عائد کیا کہ حکومت کے یہ اقدامات متعدد ووٹروں کو رائے دہندگی کے حق سے محروم کر دیں گے۔  اپوزیشن  کے مطابق یہ اقدامات شہریوں کے حقِ رازداری کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ ایوان میں بحث کے دوران ترنمول کانگریس کے رکن ڈیریک او برائن کو اجلاس کے بقیہ ایام کی سرگرمیوں سے برخاست کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس بل کو عجلت میں منظوری حاصل ہوئی جبکہ اپوزیشن یہ مطالبہ کرتی رہی کہ مزید تنقیح کے لیے بل کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ غور طلب ہے کہ اس بل کو انتخابی اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

ہندوستان میں تقریباً دو دہائیوں سے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن سیاسی اتفاق رائے میں فقدان کی بنا پر یہ معاملہ ہمیشہ ملتوی کیا جاتا رہا ہے۔ ان اصلاحات میں تقریباً 40 تجاویز کا ذکر ہے جس میں تین تجاویز بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلی، ملک میں قومی، ریاستی اورمقامی، یعنی تینوں سطح کے لیے ایک ہی ووٹر لِسٹ کی تشکیل کرنا؛  دوسری، نئے ووٹروں کے لیے سال بھر میں چار مرتبہ اندراج کی سہولت فراہم کرنا؛ اور تیسری،  ووٹر آئی ڈی کو آدھار ڈیٹا بیس سے مربوط کرنا۔  موجودہ دور میں قومی اور ریاستی سطح پر ووٹروں کی فہرست انتخابی کمیشن ہند کی نگرانی میں تیار کی جاتی ہے جبکہ مقامی سطح کی فہرست سازی میں ریاستی انتخابی کمیشنز اہم رول ادا کرتی ہیں۔ انتخابی کمیشن ہند نے سب سے پہلے 2015 میں انتخابی دیٹا کو آدھار ڈیٹا سے مربوط کرنے کا فیصلہ لیا تھا لیکن اس وقت آدھار معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھا، اس لیے اس وقت اس کو روک دیا گیا تھا۔

پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں وزیر قانون کرن رجیجو نے وضاحت کی کہ ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے جوڑنے کا عمل لازمی نہیں ہوگا، بلکہ ووٹر رضاکارانہ طور پر اپنی ووٹر آئی ڈی سے اپنا آدھار کارڈ منسلک کر سکتے ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بل ووٹر لسٹ کی ستھرائی کرے گا اور ان کی شناخت کر کے نقلی اور جعلی ووٹوں کو ختم کرے گا۔ نئے ووٹروں کو اندراج کے وقت شناخت کے لیے انتخابی افسرکو آدھار کارڈ دکھاناہوگا۔ ان کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ آدھار کی جگہ کوئی دوسرا دستاویز پیش کریں تاکہ ان کی شناخت طے ہو سکے۔اسی طریقے سے  پرانے ووٹروں کی بھی تصدیق کی جائے گی۔ کرن رجیجو نے مزید وضاحت کی کہ آدھارکارڈ پیش نہ کرنے کی’مکتفی وجہ‘  کی بنا پر ملک کے کسی بھی نئے ووٹر کو اندراج سے محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پرانے ووٹروں کے نام ووٹرلسٹ سے نکالے جائیں گے۔غور طلب ہے کہ اس بل کے ذریعہ عوامی نمائندگی قانون (1950)کی دفعہ 14، دفعہ 20 اور دفعہ 23میں ترمیم مقصود ہے۔ 

ووٹر لسٹ میں جعلی یا ڈپلیکیٹ ووٹ عام طور پر دو وجہ سے ہوتے ہیں۔ اولاً، ایک ہی انتخابی حلقے میں ایک سے زائد مرتبہ اندراج کرانے پر؛  ثانیاً، ریاست یا ملک کے ایک سے زائد انتخابی حلقوں میں ایک سے زائد مرتبہ اندراج کرانے پر۔عموماً شادی یا روزگار کی تلاش میں ہجرت کرنے کی صورت میں دوسری قسم کے اندراج ہمارے سامنے آتے ہیں۔ حکومت کے اس مشن میں کئی مسائل درپیش ہیں۔موجودہ حکومت کے عوام مخالف ریکارڈ کے مد نظر ملک کے پسماندہ طبقات اور اقلیتوں میں حکومت کے اکثر اقدامات پر شک اور تذبذب کی صورت بنی رہتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں منظور شدہ شہریت قانون اور زرعی قانون اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات بل کا واجب بحث کے بغیر عجلت کے ساتھ منظور ہونا، بل متعارف کرنے سے قبل عوامی مشاورت کی طرف رجوع نہ کرنا اور بل کو قائمہ کمیٹی کے پاس تنقیح کے لیے نہ بھیجناحکومت کی نیت پر شک کرنے کو مجبور کرتے ہیں۔ 

ان تمام حقائق کے درمیان اس امر میں سب سے بڑا سوال آدھار کی موزونیت کا ہے۔ آئینی اسکیم کے تحت ہندوستان میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے قومی اور ریاستی سطح پر انتخابی کمیشنز موجود ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے یہ لازمی ہے کہ یہ ادارے اپنے دائرہ اختیار میں حکومت کے دخل سے آزاد ہوں۔ غور طلب ہے کہ ووٹر لسٹ بنانے  کی ذمہ داری انتخابی کمیشن کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو حکومت کے دخل سے آزاد ہوتی ہیں۔ جبکہ آدھار کارڈ بنانے والی ایجنسی UIDAI   ایک حکومتی اکائی ہے۔ ووٹر آئی ڈی کو آدھار کارڈ سے مربوط کرنے پر انتخابی کمیشن کی آزاد حیثیت کے ساتھ سمجھوتا ہونے کے امکانات ہیں جس سے کمیشن کے دائرہ اختیار میں حکومت کا دخل بڑھ جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے 2018 میں یہ واضح کیا تھا کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں آدھار کا استعمال صرف فلاحی اسکیموں کے فوائد کی عوامی تقسیم اور انکم ٹیکس کے معاملات میں کر سکتی ہیں۔اگر حکومت اس بل کو قانون کی شکل فراہم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے توبہت ممکن ہے کہ اس کو عدالت عظمیٰ کی قانونی کسوٹی سے گزرنا ہوگا۔

رائے دہندگان اندراج قواعد(Registration of Electors Rules) 1960 کے مطابق کسی شخص کے بطور ووٹر اندراج کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس کے پتہ کی تصدیق کی جائے۔ لہٰذا یہ الیکشن آفیسر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کی جائے رہائش پر خود جاکر اس کے پتہ کی تصدیق کرے۔  ووٹرآئی ڈی کو آدھار سے منسلک کرنے کے بعد الیکشن آفیسر کے ذریعہ ووٹروں کے پتہ کی راست تصدیق نہیں کی جائے گی اور آدھار کارڈ میں درج پتہ کو ہی اس کی جائے رہائش تسلیم کر لیا جائے گا۔ اس ضمن میں یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ آدھار کارڈ صرف افراد کی شناخت کا دستاویز ہے، یہ ان کے پتہ یا جائے رہائش کا ثبوت نہیں ہے!  اس کے علاوہ، آدھار کارڈ افراد کی شہریت کو ثابت کرنے والا دستاویز نہیں ہے۔ یہ محض افراد کی شناخت کا تعین کرتا ہے، اس کو ہندوستان کی شہریت فراہم نہیں کرتا ہے۔ ہندوستان میں کسی شخص کے بطور ووٹر  اندراج کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ ملک کا شہری ہو۔ کسی غیر شہری کو انتخابات میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔

آدھار کارڈ میں  افراد کا اندراج بھی  ایک اہم مسئلہ ہے اور UIDAI  کے جاری کردہ دستاویزوں کی صداقت بھی مشکوک اور مبہم ہے۔ جعلی اور فرضی آدھار کارڈ حاصل کرنا بے حد آسان ہے۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا میں ہندومذہب کے دیوتا ہنومان اور دیوی دُرگا ماتا کے آدھارکی تصویرں اکثر گردش میں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ کلکتہ ہائی کورٹ اور الٰہ باد ہائی کورٹ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ آدھارکارڈ کی صداقت قابل اعتماد نہیں ہے۔ واضح ہے کہ ووٹر لسٹ کی ستھرائی سے پہلے حکومت کو آدھار ڈیٹابیس کی ستھرائی کرنی ضروری ہوگی۔

ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے مربوط کرنے کی اس مشق میں ووٹروں کی ’رضاکارانہ‘حیثیت کیا ہوگی، اس بات کی وضاحت بل میں نہیں کی گئی ہے۔ صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ’مکتفی وجہ‘ یعنی Sufficient Cause کی بنا پر اپنی ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے مربوط کرنے کے لیے رضامند نہیں ہے تو وہ الیکشن آفیسر کو کوئی دوسرا دستاویز پیش کر سکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شہریوں کی ’مکتفی وجہ‘ کی تعریف بھی حکومت ہی علیحدہ طور پر بیان کرے گی۔ تعریف بیان کرنے کا یہ حق شہریوں کو نہیں دیا گیا ہے! اس طرح یہ بل شہریوں کی آزادی اور حقِ رازداری کے ساتھ ایک سمجھوتاہی نظر آتا ہے۔ آدھار کارڈ یا دوسرے دستاویز پیش نہ کرنے کی صورت میں الیکشن آفیسر لازمی طور پر ووٹر لسٹ سے شہریوں کے نام ہٹا دیں گے اور ان کو سب سے عظیم جمہوری حق سے محروم کر دیں گے۔2015میں ریاست تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے مربوط کرنے کا کام ہوا تھا جس میں لاکھوں ووٹروں کو ووٹر لسٹ سے نکالنے کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں۔ عدالت عظمیٰ کے دخل کے بعد اس کام کو روکا گیا تھا۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ یہ کارنامہ ووٹروں کے رہائیشی پتہ کی راست تصدیق کے بغیر ہی انجام دیا گیا تھا!

ووٹر آئی ڈی اور آدھار لنکنگ کا سب سے بڑآ نقصان ووٹروں  کی پروفائلنگ کے خطروں کا ہے۔ حالانکہ وزیر قانون کرن رجیجو نے اطلاع دی کہ ووٹر آئی ڈی اور آدھار لنکنگ کا مربوط ڈیٹاعوامی دائرہ میں نہیں رکھا جائیگا، یہ ڈیٹا انتخابی کمیشن کے پاس ہی محفوظ رہے گا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ڈیٹا کی فروخت، ڈیٹا لیکیج اور سائبر ڈیٹا بریچ جیسے خطرے لاحق ہیں۔ اس سے ووٹروں کی پروفائلنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ سیاسی جماعتیں ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے ووٹروں کے مخصوص طبقے کو ٹارگیٹ کریں گے۔ گزشتہ سال اپریل ماہ میں مدراس ہائی کورٹ نے UIDAI سے جواب طلب کیا تھا کہ پڈوچیری میں کچھ سیاسی جماعتوں کی رسائی آدھار ڈیٹا تک کیسے ہوئی؟

گزشتہ سال 28 جولائی کو وزیر قانون کِرن رجیجونے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ حکومت انتخابی کمیشن ہند کی اس تجویز پر  غور کر رہی ہے  جس میں ووٹر ائی ڈی کو آدھار کارڈ سے مربوط کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کے مطابق ووٹر ائی ڈی کو آدھار سے جوڑنے کی پیشکش سب سے پہلے 2015 میں کی گئی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے بعد اس کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ انتخابی اصلاحات کے میدان میں انتخابی کمیشن نے ایک نہیں بلکہ 40 مطالبات حکومت کے سامنے رکھے تھے۔ لیکن  اپنے سیاسی مفاد کی تکمیل کے لیے حکومت جس طرح چنیدہ طور پر ان میں سے کچھ پر ہی غور کر رہی ہے، وہ بے حد فکرمندی کا سبب ہے۔

ان تمام حقائق کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس بل سے سب سے زیادہ خطرہ محروم، مظلوم اور پسماندہ طبقات کو ہے۔ آج ہندوستان میں شہریوں کی شناخت ہی سب سع بڑا مسئلہ ہے۔  ووٹر لسٹ کی ستھرائی کا حکومت کا ظاہرمقصد تو درست ہے لیکن پوشیدہ نیت کیا ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ بل کا دونوں ایوانوں میں عجلت کے ساتھ منظور کیا جانابھی مشکوک اور مبہم ہے۔ حکومت کے یہ اقدامات ان پسماندہ طبقات کے لئے آسمانی بجلی سے کم ثابت نہ ہوں گے جن کے پاس روٹی اور مکان جیسی بنیادی ضرورتیں بھی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں طالب محمود کا یہ شعر ان کے حالات کا غماز ہے:

اے فلک عجلت نہ کر بجلی گرانے کے لئے

چند تنکے اور چن لوں آشیانے کے لئے۔

اردو کلب میں اپنے مضامین شائع کرنے کے لیے یہاں بھیجیں،

urduclub@outlook.com

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...