نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جوزف ہورووٹز: محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد

محمد سجاد

جوزف ہورووٹز (Josef Horovitz 1874-1931) علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج میں عربی و فارسی کے استاد تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلق سے جو لا تعداد کتابیں لکھی گئ ہیں ان میں ان کے بارے میں بہت کم جانکاریاں مل پاتی ہیں۔ 

یہودی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اس جرمن محقق و مدرس نے اسلامیات کی تحقیق و تدریس کے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دئے۔ اور اس طرح ادبی و ثقافتی مطالعات میں اہم اضافے کئے۔ 

جوزف کے والد مارکس (Marcus) ہورووٹز بھی تاریخ داں تھے، اور ہنگری سے تعلق رکھتے تھے۔ جوزف ہورووٹز نے فرینک فرٹ، مار برگ، اور برلن یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مصر، شام، اور فلسطین کا سفر بھی کیا تھا۔ سنہ 1907ء میں ان کی تقرری بھارت (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) میں ہوئ تھی۔ علی گڑھ میں استاد کے علاوہ برطانوی ہند حکومت کے لئے فارسی و عربی ایپی گرافیسٹ کا کام بھی انجام دینا تھا۔ 

ان کا تعلق قاہرہ کے عربی دانشور رشید رضا (مدیر، المنار) ، شبلی نعمانی، حمیدالدین  فراہی، سے بھی تھا۔ عبدالستار خیری، عبدالجبار خیری، عبدالحق (عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد) کے رابطے میں بھی تھے۔ 

علی گڑھ میں ان کا قیام 1915ء تک رہا۔ یہ وہ دور تھا جب علی گڑھ کالج میں برٹش مخالف جذبہ عروج پر تھا۔ اتحاد اسلامی تحریک کے اثرات بھی تھے۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوتے ہی، ہورووٹز کے خلاف برٹش حکومت شدید طور پر مشکوک ہوگئ۔ انہیں علی گڑھ کالج چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ وہاں سے یہ فرینک فرٹ یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر ہو کر چلے گئے۔ جانے سے قبل انہوں نے انگریزوں کے اس الزام کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ اس میں علی گڑھ کے کچھ اساتذہ و طلبا نے ان کی مدد کی۔ ان کی مدد سے ہی انگریزی حکومت انہیں احمد نگر قلعہ کی قید سے رہا کرنے پر مجبور ہوئ، اور ان کو ہرجانہ کی رقم بھی حکومت کی جانب سے ملی۔ 

اس مزاحمت میں علی گڑھ کے طلبا، اساتذہ اور عام مسلمانوں کے تئیں ان کے اندر ہمدردی اور جذباتی ہم آہنگی قائم ہوئ۔ ہورووٹز کی شہرت ان کی وہ تحریریں ہیں جو ابتدائ اسلامی تاریخ، حضرت محمد، اورقرآن کے سلسلے میں شائع ہیں۔ جنوبی ایشیا کے اسلام میں بھی ان کی خاص دلچسپی تھی۔ ان کے مضامین اور ان کی تصنیفات کچھ اس طرح کے موضوع پر ہیں: “بھٹنڈا کے سنت، بابا رتن”، لیح کی ایک مسجد کا مخطوطہ، اور ایک اہم کتاب، برطانوی عہد کا ہندوستان، جس میں انہوں نے ہندوستان پر برطانوی حکومت کے نقصانات کو اجاگر کیا ہے۔ اس کو معنون کیا ہے اپنی بیوی کے نام، اس میں بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی، سماجی و اقتصادی مفاہمت و تصادم کی وضاحت کی ہے، اور دونوں قوموں کے مابین تعلقات کو استوار کرنے کی تدابیر بھی سجھائ ہیں۔ بھارت کے جدید تعلیمی نظام، مشرقی علوم اور یونیورسٹیوں کے نظام ہر بھی سیر حاصل بحثیں کی ہیں۔ بھارت کے طلبا یوروپ، بہ شمول، جرمنی سے تعلیم حاصل کر کے ہندوستانی سیاست و معاشرت میں جو اثرات مرتب کئے، اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا اختتام اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ آزاد ہندوستان ایک تعلیم یافتہ اور خوش حال متمول ملک بنے گا۔ 

ہندوستان سے جرمنی جانے کے بعد بھی ہورووٹز نے برلن میں ہندوستانی انقلابیوں سے اپنا تعلق برقرار رکھا۔ ان میں علی گڑھ کے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ (1886-1979) اور خیری برادران کے علاوہ عبدالستار صدیقی (ماہر لسانیات، جو گوٹنگن یونی ورسٹی سے منسلک تھے، عربی، فارسی، اردو، جرمن، ہیبریو کے جانکار اور  علی گڑھ، عثمانیہ اور ڈھاکہ یونیورسٹیوں میں اہم خدمات انجام دیا تھا)، منصور احمد (اردو ادب کے اسکالر) بھی شامل تھے۔ [خیری برادران کی سرگرمیوں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں، ماجد حیات صدیقی کا آئ ایس ایچ آر ، ستمبر 1987، میں شائع طویل تحقیقی مضمون؛ ممکن ہے ڈاکٹر سید محمود، 1889-1971 سے بھی رابطہ رہا ہو]۔ 

ہورووٹز نے برلن میں بھی اپنا تعلق علی گڑھ اور حیدرآباد سے برقرار رکھا۔ 

پہلی جنگ عظیم کے ہندوستانی قیدیوں کے بیانات ریکارڈ کرنے میں بھی وہ جرمن حکومت کے معاون تھے۔ اس طرح وہ جرمنی اور ہندوستان کا ایک برٹش مخالف محاذ قائم کرنا چاہتے تھے۔ 

بھارت کے دانشوروں سے جو تعلق بنایا تھا وہ جرمنی واپس جا کر بھی برقرار رکھا۔ حیدرآباد کے معروف و مؤقر جریدہ، اسلامک کلچر، میں ان کے تحقیقی مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ بالخصوص، 1927 سے 1931 کے دوران۔ ان میں سے بیش تر تحریریں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان افہام و تفہیم قائم کرنے کی جانب تھیں۔ یروشلم (فلسطین) کی ہیبریو یونی ورسٹی کے قیام (1925) کے وقت اور اس کے ابتدائ سفر میں اسلامیات و مشرقی علوم کے شعبے قائم کروانے میں ان کا اہم رول تھا۔ اس طرح ہندوستان جیسے کثیرالمذاہب اور کثیراللسانی معاشرے میں رواداری کے تجربے کو وہ عرب اور یوروپی ممالک میں بھی وسعت دینے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ان کا سیاسی نظریہ اور ان کی دانشورانہ تحریریں اسی سمت میں کی جانے والی کوششیں تھیں۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی میں سنہ 1924 ء میں ان کو عربی و اسلامی علوم کے شعبے میں مقرر کر لیا گیا تھا لیکن برطانوی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ڈیوڈ لیلیویلڈ کے مطابق، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بھی وائس چانسلر راس مسعود (1889-1937) نے برطانوی حکومت سے اجازت مانگی تھی کہ ان کو شعبہ اسلامیات کو از سر نو منظم کرنے کے لئے بلوایا جائے۔ لیکن جلد ہی، اچانک، دل کا دورہ سے، ہورووٹز کی موت سنہ 1931ء میں ہو گئ۔ موت سے عین قبل بھی ایک مضمون انہوں نے اسلامک کلچر (حیدرآباد) میں شائع ہونے کے لئے ارسال کیا تھا۔ جریدہ نے اپریل 1931 کے شمارے میں ان کے طویل مضمون کے علاوہ ان کی تعزیت بھی شائع کی تھی۔ قرآنیات سے متعلق ان کی تحریریں یہودی، مسلمان اور عیسائ کے مابین بہتر تعلقات قائم کرنے کی جانب تھیں۔ ان کی ان جرمن تحریروں کے انگریزی ترجمہ کو مارماڈیوک پکتھال (1875-1938) نے اسلامک کلچر (حیدرآباد) میں شائع کیا۔ جرمنی اور بھارت میں اسلامیات میں زبان اور آرکائیوز کے مطالعے کی اہمیت کو انہوں نے اجاگر کیا۔ ہیبریو یونیورسٹی میں صیہونی نظریہ والے اساتذہ کی تعداد کافی تھی، پھر بھی ہورووٹز نے اپنا تعلق ان لوگوں سے زیادہ بنایا جو فلسطینیوں کے تئیں ہمدردانہ جذبہ رکھتے تھے اور مسلم یہودی مفاہمت کی جانب مائل تھے۔ بھارت کی تحریک خلافت کے تعلق سے بھی ہورووٹز ایک ہمدردانہ سلوک روا رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں پکتھال اور شوکت علی کا مراسلہ بھی دستیاب ہے۔ 

یہودی و اسلام میں مفاہمت کی جو روایت ہورووٹز نے دانشورانہ سطحوں پر قائم کیا تھا، اس روایت کو ان کے طلبا نے آگے بڑھانے کا کام کیا۔ ان کے چند سرگرم طلبا نے تو اسلام قبول بھی کیا۔  

(نوٹ: رزاق خان کے ایک تازہ انگریزی مضمون سے ماخوذ)

اردو کلب میں اپنے مضامین شائع کرنے کے لیے یہاں بھیجیں،

urduclub@outlook.com

مشہور اشاعتیں

ہندوستانی مسلم سیاست ( 1947۔1977) پر ایک نئی کتاب

ایک اور ہندوستان: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک از، پرتینو انیل تبصرہ، پروفیسر محمد سجاد ملک کے بٹوارے کے ساتھ حاصل آزادی کے بعد، تین دہائیوں یعنی سنہ 1977ء تک مسلمانوں کی سیاست سے متعلق ایک نئی کتاب آئی ہے۔  نوجوان مؤرخ پرتینو انیل کی اس تازہ کتاب کا عنوان ہے، ایک اور بھارت: دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کی تعمیر، 1947ء سے 1977ء تک۔ اس ضخیم کتاب کی تحقیق کا معیار عمدہ ہے، لیکن نثر نہ صرف مشکل ہے، بلکہ انداز بیان بھی rhetorical اور provocative ہے۔ نامانوس انگریزی الفاظ و محاورے اور فرنچ اصطلاحات کے استعمال نے کتاب کو قارئین کے لئے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انیل نے نہرو کی پالیسیوں اور پروگراموں کی سخت تنقید کی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کے تعلق سے شائع ایشوریا پنڈت کی کتاب (2018) اور انیل کی اس کتاب کو ایک ساتھ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نویسی کی کیمبرج مکتبہ ٔفکر، نہرو پر نشانہ کسی مخفی اور منفی مقصد سے کر رہی ہے۔ بھگوائی سیاست بھی نہرو کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلم فرقہ پرست طاقتیں بھی نہرو کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انیل نے نہرو عہد کو اسلاموفوبک عہد کہن...

فلموں میں گیت سازی

ندا فاضلی  ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ آجکل دہلی (شمارہ: اگست/ستمبر-1971) فلمی گیتوں کو ادبی معیار پر پرکھنا درست نہیں۔

علی گڑھ کی روایات اور فضل الرحمان کا انحراف، بہ الفاظ مختار مسعود

۔۔۔ایک دن ہم لوگ تانگہ میں بیٹھ کر رسل گنج [علی گڑھ] گئے۔ فضل الرحمان نے گرم جلیبیاں خریدیں اور حلوائ کی دکان پر بیٹھ کر کھانی شروع کر دیں۔ پہلی جلیبی منہہ میں ڈالی ہوگی کہ تانگہ میں سے کسی نے کھنکھارنا شروع کیا۔ وہ اس اشارے کو گول کر گئے۔ سب نے شور مچایا کہ یوں بر سر عام کھانا علی گڑھ کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ غیر مہذب اور جانگلو ہونے کی نشانی ہے۔  بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ کہنے لگے، اس وقت بھوک لگی ہے اس لئے کھا رہا ہوں۔ کھانے کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جو روایات بھوک کا خیال نہ رکھیں گی وہ مٹ جائیں گی۔ انصاف سے کام لو کچھ تقاضے اور آداب اس مٹھائ کے بھی ہیں۔ اسے گرم گرم کھانا چاہئے۔ بازار سے یونی ورسٹی تک پہنچتے ہوئے اس گرم جلیبی پر ایک سرد گھنٹہ گذر چکا ہوگا۔ اس کی لذت کم ہو جائے گی۔ آپ نہ بھوک کا لحاظ کرتے ہیں نہ لذت کا خیال رکھتے ہیں۔ پاس ہے تو صرف فرسودہ روایات کا۔  یاد رکھئے جیت ہمیشہ گرم جلیبی کی ہوگی۔ یعنی وہ بات جو عملی ہو اور وہ عمل جو فطری ہو۔ اس کے سامنے نہ روایت ٹھہر سکے گی نہ ریاست۔ جہاں تک بر سر عام کھانے کو غیر مہذب سمجھنے کا تعلق ہ...